Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے خطرناک ’ٹو ڈبلیوز‘ بمقابلہ مارٹن کرو

وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ ’جن بلے بازوں کو انہوں نے بولنگ کی  ان میں مارٹن کرو بہترین تھے‘ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
90 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے ریورس سوئنگ سے بلے بازوں کا کھیلنا محال کر رکھا تھا۔
دونوں نے اس ہنر کو سب سے زیادہ کامیابی سے نیوزی لینڈ کے خلاف آزمایا۔ اس زمانے میں جس بلے باز نے اس مہلک ہتھیار کا بڑی مہارت سے مقابلہ کیا اس کا نام مارٹن کرو ہے۔
وسیم اکرم اور وقار یونس ان کے اس کمال کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ جن بلے بازوں کو انہوں نے بولنگ کی  ان میں کرو بہترین تھے۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک ریورس سوئنگ کے خلاف عمدہ بیٹنگ ہے جس کی بہترین مثال 1990 میں نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کے دوران سامنے آئی۔ وسیم اکرم کے بقول ’اس زمانے میں کرو کے علاوہ کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ ریورس سوئنگ کو کیسے کھیلنا ہے۔‘
 نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں وقار یونس نے تین میچوں میں 29 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی بولنگ نے مہمان ٹیم کو کلین سویپ کی خفت سے دوچار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
1982 میں آسٹریلوی ٹیم کو تین صفر سے ہرانے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب پاکستان نے تین میچوں کی سیریز میں کلین سویپ کیا۔ پہلے دو ٹیسٹ میچوں میں وسیم اکرم نے عمدہ بولنگ کی۔ ان فٹ ہونے کی وجہ سے وہ تیسرا ٹیسٹ نہ کھیل سکے۔
  کرو نے  اپنے کیریئر میں وقار یونس کو خطرناک ترین بولر قرار دیا۔
وقار یونس بھی انہیں بہترین بلے بازوں میں سے ایک کہتے ہیں۔ کرو نے ’کالی آندھی‘ کا بھی سامنا کیا لیکن ہیلمٹ پر گرل لگانے پر انہیں وقار یونس کی بولنگ نے مجبور کیا۔

وسیم اکرم کی ریورس سوئنگ کو کھیلنا بلے بازوں کے لیے کافی مشکل تھا (فوٹو: اے ایف پی)

  پاکستان کے ساتھ سیریز کے پہلے دو ٹیسٹ میچوں کی ایک ایک اننگز میں کرو ناٹ آؤٹ رہے۔ لاہور میں آؤٹ ہوئے بغیر ان کی سینچری ریورس سوئنگ کے خلاف مزاحمت کی عمدہ مثال ہے۔  108 رنز کی اننگز میں وہ تقریباً 10 گھنٹے وسیم اور وقار کے حربے ناکام بناتے رہے۔
 مارٹن کرو کی تکنیک یہ تھی کہ وہ وسیم اکرم اور وقار یونس کی ہر گیند کو ان سوئنگ سمجھ کر کھیلتے جس کا رخ پیڈز اور وکٹوں کی طرف ہوتا۔
گیند اگر باہر نکلتی تو اس کا پیچھا نہ  کرتے۔ ڈرائیو کرنے سے احتراز برتتے۔ اس لیے وکٹوں کے عقب میں آؤٹ ہونے سے بچے رہتے۔ ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے۔
وسیم اکرم کو انہوں نے بتایا کہ بیک فٹ پر کھیلنے سے تو ان کے بچاؤ کی کوئی صورت ہی نہیں تھی۔
وسیم اکرم  نے ’کرک انفو ‘سے ایک بار گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے  کیریئر میں عظیم بلے بازوں میں دو خوبیاں دیکھیں۔  ایک تو وہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے تھے دوسرے گیند کو لیٹ کھیلتے تھے۔
وسیم اکرم نے اپنی کتاب ’سلطان‘ میں لکھا ہے کہ اگر نیوزی لینڈ کے بجائے کرو کا تعلق کسی اور ملک سے ہوتا تو ان کا شمار  ویوین رچرڈز، برائن لارا اور سچن تندولکر کی طرح آل ٹائم گریٹ کھلاڑیوں میں کیا جاتا۔
وسیم اکرم نے بتایا کہ کرو کو خود  پر اس قدر اعتماد تھا کہ ان کے پوچھنے پر انہوں نے  ریورس سوئنگ کھیلنے کی اپنی تکنیک کے بارے میں سب کچھ بتادیا۔
مارٹن کرو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے پاکستان آنے سے پہلے ریورس سوئنگ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔

وقار یونس اور وسیم اکرم پاکستان کے خطرناک ’ٹو ڈبلیوز‘ قرار دیے جاتے تھے (فوٹو: کرکٹ میگ)

   وسیم اور وقار اگر کرو کی عظمت مانتے ہیں تو ادھر کرو بھی ان کے بڑے قائل تھے۔
کرو نے ایک مضمون میں لکھا کہ دونوں بولر فیلڈرز پر زیادہ تکیہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی ٹیم خراب فیلڈنگ کرتی سو ان دونوں جینیئس بولروں نے فاسٹ بولنگ کے ایسے آرٹ میں کمال حاصل کیا جس میں بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کے لیے فیلڈروں کی ضرورت کم ہی پڑتی۔ انہوں نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی کو حیرت انگیز قرار دیا۔
مارٹن کرو کی بات ہورہی ہے تو کچھ ذکر1992 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کا بھی ہو جائے جس میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی۔
اس ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ سے پاکستان کے ٹاکرے کا ایک پس منظر بھی تھا۔ مارٹن کرو کی قیادت میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو عمران خان نے اسے بی ٹیم قرار دے کر کھیلنے سے انکار کردیا۔ کل کی بی ٹیم اب ورلڈ کپ کی مضبوط ٹیم کے روپ میں سامنے تھی جس نے آسٹریلیا کو ہرا کر ٹورنامنٹ کا شاندار آغاز کیا۔
مارٹن کرو نے اس میچ میں سینچری سکور کی۔ اس کے بعد کیویز نے  مسلسل چھ میچ جیتے۔ کرو نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنائے۔
پاکستان نے آخری میچ  نیوزی لینڈ سے  کھیلنا تھا جو کوئی میچ نہیں ہاری تھی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ پاکستان نے توڑا لیکن نیوزی لینڈ کو اس سے فرق نہیں پڑا۔
وہ سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ ادھر نیوزی لینڈ سے  جیتنے کے بعد پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے ضروری تھا  کہ آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کو ہرائے۔ ایسا ہو گیا اور پاکستان کی سیمی فائنل میں رسائی ممکن ہوئی۔ 
سیمی فائنل میں کرو نے بڑی عمدہ بیٹنگ کی۔ 91 رنز بنائے، کوئی پاکستانی بولر انہیں آوٹ نہ کر سکا۔ رن آؤٹ ہونے پر ہی  ان سے جان چھوٹی۔

92 کے ورلڈ کپ میں بھی مارٹن کرو نے پاکستانی بولروں کو کافی پریشان کیا (فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان نے اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں اس اننگز  کو بہت سراہا ہے۔ کرو  کی وجہ سے نیوزی لینڈ 262 رنز بنانے میں کامیاب ہوا جو اس زمانے میں بہت اچھا سکور سمجھا جاتا تھا۔
جاوید میانداد نے اپنی سوانح کٹنگ ایج میں لکھا ہے کہ چھوٹی باؤنڈری ہونے کے باوجود 50 اوورز میں 263 رنز بنانا آسان نہیں تھا اور پاکستانی ٹیم اس لیے بھی نروس تھی کہ اس نے ورلڈ کپ میں اتنا بڑا ہدف عبور نہیں کیا تھا۔
انضمام الحق کی شاندار بیٹنگ نے پاکستان کو فتح دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا جنھوں نے ایک ایسے وقت میں جب ٹیم بہت زیادہ دباؤ میں تھی 37 گیندوں پر 60 رنز بناکر میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔
 مارٹن کرو بیٹنگ کے دوران ان فٹ ہو گئے تھے اس لیے ان کی جگہ جان رائٹ نے کپتانی کی۔
کرو نے بے چینی اور اضطراب کے عالم میں گراؤنڈ سے باہر بیٹھ کر اپنی ہار کا تماشا دیکھا۔ رائٹ کی کپتانی سے وہ مطمئن نہیں تھے جنہوں نے ان کے خیال میں بولروں کو صحیح طرح  سے استعمال نہیں کیا۔

سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ میں پاکستان کے خلاف اپنے آخری ون ڈے میچ میں مارٹن کرو نے 83 رنز بنائے (فائل فوٹو: کرکٹ میگ)

92 کے ورلڈ کپ کے بعد جنوری 1993 میں پاکستان نے نیوزی لینڈ میں ایک ٹیسٹ میچ کھیلا۔ مارٹن کرو زخمی ہونے کے باعث اس میچ میں شریک نہ ہوئے۔ یہ میچ وسیم اکرم اور وقار یونس کے نام رہا جنہوں نے 20 سے میں 17 کھلاڑی آؤٹ کیے، جن میں وسیم اکرم نے اٹھ اور وقار یونس نے نو کھلاڑی آؤٹ کیے۔
نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے 127 رنز بنانے تھے  لیکن وسیم اکرم اور وقار یونس نے اسے 93 پرڈھیر کر دیا۔
ون ڈے سیریز میں مارٹن کرو کی کارکردگی بہت عمدہ رہی۔ تین میچوں میں سے دو میں وہ مین آف دی میچ تھے۔ دونوں دفعہ وہ  ناٹ آوٹ رہے۔ ٹو ڈبلیوز کے خلاف اس آخری معرکہ آرائی میں وہ سرخرو رہے۔
1994 میں جنوبی افریقہ میں پاکستان کے خلاف اپنے آخری ون ڈے میچ میں انہوں نے 83 رنز بنائے۔
وسیم اکرم اس میچ میں نہیں تھے۔ وقار یونس اور عاقب جاوید کی عمدہ بولنگ کی وجہ سے پاکستان نے یہ میچ پانچ وکٹوں سے جیت لیا۔ دونوں مشترکہ طور پر مین آف دی میچ ٹھہرے، البتہ وہ مارٹن کرو کو آؤٹ کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی قیمتی وکٹ سلیم ملک کے حصے میں آئی۔

شیئر: