Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’متلاشی‘‘

آجکل انسان ہی نہیں، کمبختی ماری گولیاں بھی آوارہ ہوچکی ہیں جو کسی بھی آتے جاتے کی زندگی کا چراغ گُل کر جاتی ہیں
- - - -  - - - - - - - -
شہزاد اعظم
 - - - - - -- - - - - - -  -
ٹھیک ایک ہفتہ قبل ہمیں اس امر کا احساس ہوا کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں سانس لینے کے لئے انسان کوگفتار، کردار، اطوار، انداز، فہم و آگہی، علم و حکمت اور شستگی و شائستگی جیسے اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے تب ہی وہ اس ’’تہذیب یافتہ معاشرے‘‘ کا معزز فرد کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے ورنہ تو وہ کسی جنگل میں ڈیرہ ڈالنے والے جنگلی سے زیادہ کوئی اہمیت حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ احساس ہمیں اس وقت ہوا جب ہم نے وطنِ عزیز کے ساحلی شہر کراچی سے تاریخی شہر لاہور کے لئے سفر کیا۔ ہم اپنے ’’خردصاحبزادے‘‘ یعنی چھوٹے بیٹے کے ساتھ رختِ سفر باندھ کر ٹیکسی میں سوار ہو کر بوقتِ فجر گھر سے نکلے کیونکہ ریل نے 6بجے چھوٹنا تھا۔ شہر کے تمام حساس علاقے جنہیں اب عرفِ عام میں ’’خطرناک ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور بتایاجاتا ہے کہ ان علاقوں سے ہی بند بوری یا کھلی بوری میں سمٹی لاشیں ملتی ہیں جن میں مہلوکین، معصومین ، مقتولین ،جاں بحق اورشہید سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ ان علاقوںسے ہماری ٹیکسی فراٹے بھرتی گزرتی رہی اور ہم توبہ استغفار میں مشغول رہے کیونکہ آجکل انسان ہی نہیں، کمبختی ماری گولیاں بھی آوارہ ہوچکی ہیں جو کسی بھی آتے جاتے کی زندگی کا چراغ گُل کر جاتی ہیں۔ہم تمام حساس علاقوں سے بخیر و عافیت گزر کرغیر حساس یعنی ’’بے حس‘‘ علاقے میں داخل ہوئے تو ہم نے سکھ کا سانس لیا مگر ایسا کرتے وقت ہم یہ بھول گئے کہ حساس علاقوں میں اگر غیر قانونی بندوق برداروں سے مڈ بھیڑ کاخدشہ ہوتاہے تو ’’بے حس‘‘ علاقوں میں ’’قانونی بندوق برداروں‘‘کی جانب سے ’’استقبال‘‘ کی دہشت انسان کو نیم مردہ کر دیتی ہے چنانچہ وہی ہوا، فجر کے دھندلکے میں ہماری ٹیکسی صدر کے ایک علاقے کی بلند و بالا عمارت کے پاس سے گزرنے لگی تو اس کی ’’چھایہ‘‘ سے دو ٹارچ بردارباوردی ہستیاں نمودار ہوئیں اور انہوں نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔فرق اتنا تھا کہ اُن ہستیوں کے بالائی دھڑ پر سیاہ قمیص اور زیریں دھڑ پر پیلی پینٹیں تھیں جبکہ ہماری ٹیکسی کے بالائی دھڑ کا رنگ پیلا اور زیریں کا سیاہ تھاگویا پولیس والے کو اُلٹا کھڑا کر دیں تو ٹیکسی بنتی ہے اور ٹیکسی کوچھت کے بل کھڑا کر دیں تو پولیس والے کی موجودگی کا گمان ہوتا ہے۔ بہر حال’’محافظینِ قانون‘‘ کا حکم تھا چنانچہ ٹیکسی ڈرائیور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ٹیکسی کے تمام بریکس لگا دیئے۔ ہم ’’دہشت‘‘ سے کانپ رہے تھے۔ ہم نے سلام کیا تو اس میں اس قدر ’’مرکھیاں‘‘ لگیں جیسے کسی کلاسیکی گلوکار نے کوئی پکا راگ شروع کرنے کی کوشش کی ہو۔اتنے میں ایک سخت گیر بھاری بھرکم ہاتھ کھڑکی سے اندر آیااور ہماری کلائی تھامتے ہوئے وہ ’’صاحبِ ہاتھ‘‘ گویا ہوا’’ جناب! ذرا ٹیکسی سے باہر آنے کی زحمت تو کیجئے۔ ‘‘ ہم خوش ہوئے اور سوچاکہ کتنے پیار اور احترام سے بلا رہا ہے اور کیوں نے بلائے ، آخر کو ہمارے ’’منی پاکستان‘‘ کی پولیس ہے۔
انہی خیالوں میں ہم ٹیکسی سے باہر نکل چکے تھے۔وہ دو تھے۔ ان کے چہرے دیکھ کر تو ہمارے جسم کے روئیں روئیں نے ’’پکا راگ ‘‘گاناشروع کر دیا۔ ہمارا سراپا کپکپا رہا تھا اور رعونت سے معمور مسکراہٹ اُن دونوں اہلکاروں کی زیرِ مونچھ سے اُبل کر چہرے پر پھیل رہی تھی۔ ایسا احساس ہو رہا تھا جیسے انہوں نے دہشتگردوں کے چیئرمین کو لاہور فرار ہوئے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے۔ اتنے میں ایک اہلکار نے ہم سے کہا کہ تلاشی دیں۔ ہم نے تلاشی کے بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنے دونوں ہاتھ دائیں بائیں پھیلا ئے تو ایک ’’دھمکی آمیز گرج‘‘ سنائی دی کہ ہاتھ نیچے رکھیں، نیچے، سمجھ آئی ہے؟ہمنے تعمیل کی۔
اس دوران دوسرے متلاشی نے ہم سے استفسار کیاکہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ ہم نے کہا ناظم آباد سے۔ بولے کہ وہاں کیا کرتے ہیں؟ ہم نے کہا رہتے ہیں۔اتنے میں دوسرے نے ہماری جیب میں موجود شناختی کارڈاور پیسے نکالے اور پوچھاکہ یہ کارڈ تو لاہور سے بنوایا گیا ہے۔ ساتھ کون ہے، میں نے کہا بیٹا ،اس نے کہا کہ شناختی کارڈ لاہور کاتو بیٹا کراچی میں کیسے؟ ہم نے کہا کہ ہمارے پاس ’’کراچی کا گرین کارڈ‘‘ ہے یعنی بیوی کراچی کی ہے۔ اس نے کہابیٹے کا ثبوت؟ہم نے کہا ابھی شناختی کارڈ نہیں بنا، بس یقین کریں، اللہ کی قسم، یہ بیٹا میرا اپنا ہے۔ وہ بولا لاہور کیوں جا رہے ہو؟ میں نے کہا بہن بھائیوں سے ملنے، امی ابو انتقال کر چکے ہیں۔ اس نے کہا کہ کارڈ کے ساتھ کتنے پیسے ہیں؟ ہم نے کہا 5ہزار۔ اس نے ایک ایک پیسہ گنا اور کہا یہ تو پونے 6ہزار ہیں۔ باقی کیا چرائے ہیں؟دوسرا بولا جانے دے۔
ہم2دن لاہور میں رہے جہاں ہم نے ’’باعزت واپسی‘‘ کی مکمل مشق کی۔ اب رات کے ایک بجے کراچی واپس پہنچے۔ٹیکسی میں سوار ہو کر گھر کی جانب روانہ ہوئے۔ پولیس نے روکا۔ ہم باہر نکلے اور گویا ہوئے،نام شہزاد، ساتھ میں بیٹاہے، ناظم آباد میں رہتے ہیں، میرا کارڈ لاہور کا بیوی کراچی کی،امی ابو انتقال کر چکے ، سعودیہ سے چھٹی آیا، بہن بھائیوں سے ملنے لاہور گیا، جیب میں 5ہزار235روپے اور5کے دوسکے ہیں، جو اپنی کمائی کے ہیں چوری کے نہیں۔اس نے سارے پیسے گنے۔ ہم نے کہا ’’سر!دہشت گرد نہ ہونے کے لئے جیب میں کتنے پیسے ہونا ضروری ہیں؟ اس نے کہا ’’ٹر ٹر نہ کریں، شکر کریں کہ ہم آپ کو چھوڑ رہے ہیں۔‘‘ہماری سمجھ میں نہیں آ سکا کہ یہ متلاشی کیا تلاش کرتے ہیں؟

شیئر: