Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے جدت: الشرق الاوسط نئے انداز کے ساتھ ری لانچ

الشرق الاوسط فیصلہ سازوں اور تحقیقی مراکز کے لیے خبروں کا ذریعہ رہا ہے۔(فوٹو: عرب نیوز)
معروف پین عرب اخبار الشرق الاوسط جو سعود ی ریسرچ ایندڈ میڈیا گروپ ( ایس آر ایم جی) کے فلیگ شپ میڈیا برانڈز میں سے ایک ہے پہلی ڈیجیٹل تبدیلی سے گزرا ہے جس سے پرنٹ اور ڈیجیٹل پیشکشوں میں اضافہ ہوا ہے۔
الشرق الاوسط  کا ہدف نئے انداز، ٹیکنالوجی اور اپنے پلیٹ فارمز کی تجدید کے ساتھ نئی نسل تک رسائی اور قارئین کو بڑھانے کی کوشش ہے۔
یہ تبدیلی 45 سال کی معیاری صحافت پر مبنی ہے جس میں الشرق الاوسط فیصلہ سازوں، انفلونسرز اور خطے میں دلچسپی رکھنے والے پالیسی اور تحقیقی مراکز کے لیے خبروں کا ذریعہ رہا ہے۔
الشرق الاوسط کے نئے ڈیجیٹل اضافے میں ایک بہترین ویب سائٹ، ایک انٹرا ایکٹیو موبائل ایپ، پوڈ کاسٹ چینل، ریفریشڈ سوشل میڈیا چینلز اور تمام سامعین کے ٹچ پوائنٹس میں اپ ڈیٹ شامل ہیں۔
نئے ڈیجیٹل اضافے کے ساتھ الشرق الاوسط کا مواد اب مکمل طور پربشمول بلومبرگ اور ایس آر جی ایم کے تمام پلیٹ فارمز تک قابل رسائی ہے۔
الشرق الا وسط جو سیاست، ثقافت اور اقتصادیات کے ساتھ صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوریج  کے لیے پہلے سے مانا جاتا ہے نے اپنی ادارتی حکمت عملی کو تقویت دی ہے جس سے کوریج میں اضافہ ہوا ہے۔
الشرق الاوسط کا آغاز 1978 میں ایک پین عرب اخبار کے طور پر کیا گیا تھا۔
الشرق الاوسط کی ری لانچنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے سعودی ریسرچ اینڈ میڈیا گروپ ( ایس آر ایم جی) کی سی ای او جمانا الراشد نے کہا کہ ’اپنی تخلیق کے بعد سے الشرق الاوسط کوعرب دنیا کے ایک اہم اخبار کے طور پربڑے پیمانے ہر تسلیم کیا گیا ہے‘۔
’کوئی دوسرا عرب اخبار اپنی رپورٹنگ کے معیار اور گہرائی کے حوالے سے مقابلہ نہیں کرسکا‘۔

الشرق الاوسط کا آغاز 1978 میں ایک پین عرب اخبار کے طور پر کیا گیا تھا

انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ الشرق الاوسط نے مضبوط اور وفادار قارئین کو برقرار رکھا ہے۔ یہ الشرق الاوسط کی جدت کی ایک اور مثال ہے‘۔
’ہم ادارتی مواد کو تقویت دے رہے ہیں۔ ڈیٹا اور نئے پلیٹ فارمزکے ذریعے اس کی ترسیل کو بہتر بنا رہے ہیں‘۔
جمانا الراشد نے کہا کہ’ ہم نوجوان اور ابھرتے ہوئے صحافیوں کو اپنی جانب متوجہ اور ان کی صلاحیتیں بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ معیاری رپورٹنگ فراہم کریں جس کے لیے الشرق الاوسط جانا جاتا ہے‘۔ 

شیئر: