Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش

زرداری اور پی پی کا مستقبل سابق صدر اور انکی بہن نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا ہے، پھر رونا کیسا؟
* * * * صلاح الدین حیدر* * * *
سیاسی درجۂ حرارت ابھی عروج پر تو نہیں گیا لیکن میانہ روی سے بلندی کی طرف پچھلے3,2 مہینوں سے مسلسل گامزن ہے۔ کوئی نئی بات نہیں لیکن حیرانی تو اُس وقت ہوئی جب سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے نہ صرف اونچی اُڑان کی سوچی، بلکہ عمل پیرا بھی ہوئے۔ اب تک تو پنجاب میں اپنی ڈوبتی ہوئی نیّا کو منجدھار سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف تھے، اُن کی ساری کاوشیں پنجاب (جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے) پر مرکوز تھیں۔ کئی ایک بار وہ خود اور اُنکی موجودگی یا غیر حاضری میں بلاول بھٹو اس کام میں لگے رہے، کامیابی پھر بھی دُور دُور تک دِکھائی نہیں دیتی تھی۔ اب وہ پنجاب سے نکل کر خیبرپختونخوا کے دورے پر گزشتہ ہفتے،10 روز سے عمران خان کیخلاف مہم جوئی پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔ کوئی بُری بات نہیں۔
میدان ہر ایک کیلئے کھلا رہنا چاہیے، ہر ایک کو اظہار رائے اور سیاست کرنے کی آزادی آئین نے دی ہے، پھر کیوں نہ استفادہ کیا جائے، لیکن ہر شخص کو، خاص طور پر سیاست دانوں کو تہذیب، ادب و آداب کا خیال ہر حال میں رکھنا چاہیے۔ سیاست میں جملے بازی فطری اور مسلمہ اصول ہے، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن الفاظ یا فقرے بازی تہذیب سے باہر نکل جائیں تو پھر اُس کا نتیجہ بھی بھگتنے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔ زرداری صاحب پنجاب میں اپنی پارٹی کی ساکھ دوبارہ بحال نہیں کرسکے تو سوچا چلو آگے چل کر دیکھتے ہیں۔ ہیں تو وہ شاطر کھلاڑی، سیاست کے دائو پیچ سے بھی بخوبی واقف ہیں مگر سیاست میں ذرا سی غلطی بہت بھاری پڑ جاتی ہے۔ یہ قانونِ فطرت ہے ۔پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں، پھر دہرائے دیتا ہوںکہ انسان کا بنایا ہوا قانون غلطیوں سے پُرہوسکتا ہے اور اکثر و بیشتر ہوتا بھی ہے لیکن فطرت کے اصول کبھی نہیں بدلتے۔ 2 باتیں غور طلب ہیں:پہلی تو یہ کہ زرداری صاحب خود میدانِ عمل میں کود پڑے ہیں تو پھر بلاول کی تو لامحالہ ثانوی حیثیت بغیر کہے ہوگئی۔
لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ زرداری صاحب پنجاب کے شہروں کے بعد اب کبھی مانسہرہ، کبھی پشاور اور کبھی قبائلی علاقہ جات میں تقریریں کرتے نظر آتے ہیں۔ ضرور کیجیے کوئی منع نہیں کرتالیکن صرف یہ سوچ لیں کہ اُنکی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اثر بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ اگر پنجاب میں اُنہوں نے نواز شریف کو للکارا، جنگلہ ٹرین اور بس سروس کو عوام النّاس کی بھلائی اور دیکھ بھال پر ترجیح دینے کو کمیشن اور بڑے بڑے ٹھیکوں سے پیسے بنانے کا ذریعہ گردانا، تو یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہند کو تو چھوڑ یئے ، امریکہ جیسے ملک میں جہاں جمہوریت 1776 سے نہ صرف قائم ہے بلکہ جڑیں پکڑ چکی ہے، وہاں بھی 2000 کے صدارتی انتخابات میں جارج بُش نے کلنٹن کے بارے میں یہ کہہ کر دُنیا کو حیران کردیا تھاکہ خارجہ پالیسی میں اُن کے حریف سے زیادہ تو اُن کا کتا جانتا ہے۔ پاکستان میں اگر عمران خان نے ’’اوئے‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا تو نواز شریف کے حواریوں نے آسمان سر پر اُٹھالیا تھا۔خود چاہے وہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ جیسے سرکاری دفتر سے سیاسی بیانات روز دیتے رہیں، اُس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا، اگر ایک بار تحریک انصاف نے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (جو وزارت اطلاعات کا ذیلی حصّہ ہے) کے فورم پر پریس کانفرنس کرنے کی خواہش ظاہر کی تو شور و غوغا مچ گیا کہ آپ کیسے سرکاری دفتر استعمال کرسکتے ہیں۔
بغور دیکھا جائے تو دانیال عزیز، طلال چوہدری، مریم اورنگزیب (جنہیں میں نواز شریف کی انڈر 19کرکٹ ٹیم کہتا ہوں) بلاناغہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں بیٹھ کر عمران کیخلاف اول فول کہتے رہتے ہیں۔ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ: جناب! سرکاری دفتر سیاست کیلئے نہیں استعمال کیا جاسکتا، آپ پر لاقانونیت کا اطلاق کیا جاسکتا ہے اور کسی دن کوئی بھی سرپھرا عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کردے گا کہ ان لوگوں کو مجرم ٹھہرایا جائے اور ان سے سرکاری دفتر استعمال کرنے کا کرایہ وصول کیا جائے۔ چلیں چھوڑیں اس بحث کو۔پاکستان میں ویسے ہی اُلٹی گنگا بہتی رہی ہے اور قانون لکھے جانے کیلئے ہوتے ہیں، عمل درآمد ندارد۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ آصف زرداری نے بیک وقت نواز شریف اور عمران خان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ آئندہ انتخابات میں وہ خود، بلاول اور دونوں بیٹیاں آصفہ اور بختاور سب ہی میدان میں ہوں گے، کوئی مضائقہ نہیں۔
ہر پاکستانی جو 18 سال کا ہو، اُسے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور 25 سال کی عمر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصّہ لینے کا حق بھی حاصل ہے۔ ضرور آئیں میدان میں، لیکن نواز شریف کے پاس تو پھر بھی لوگوں کو قائل کرنے کیلئے بہت کچھ مواد موجود ہے، عمران خان کے پاس بھی کہنے اور دِکھانے کو کافی کچھ ہے۔ لوگ مانیں یا نہ مانیں، یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا میں پولیس کا نظام پورے پاکستان میں ہر جگہ سے بہتر ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ہوا یا نہیں، یہ تو پتا نہیں، لیکن پولیس اب عوام کو تنگ کرنے میں تامل محسوس ضرور کرتی ہے۔
صوبے میں جہاں 2013 سے تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی کی مشترکہ حکومت ہے، انتظامی امور میں صرف پنجاب سے ہی مقابلہ ہے۔ بلوچستان میں جہاں نواز شریف کے حمایتی وزیراعلیٰ ثناء اﷲ زہری یا صوبۂ سندھ کے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ، سے کہیں بہتر کام اُن کے خیبرپختونخوا کے ہم منصب پرویز خٹک نے کیا ہے۔ یہ صوبہ آج انتظامی طور پر پنجاب کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں سب سے بلند مقام رکھتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں، تو زرداری صاحب لاکھ عمران خان کو بُرا کہیں، اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ زرداری کا یہ کہنا کہ نواز، عمران شو مُک (پنجابی زبان میں ختم) گیا۔ صرف اُن کا ہی نہیں سب کا شو ختم ہوگیا ہے۔
سابق صدر زرداری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ہم پنجاب میں ہر جگہ چیلنج کریں گے، اُنہیں انتخابات میں دھاندلی نہیں کرنے دیں گے، ہر پولنگ اسٹیشن پر اپنے نمائندے تعینات کریں گے تاکہ نتائج سب کے سامنے مکمل ہوں۔ نواز کاغذی شیر ہیں اور بلّا(Bat) دیسی۔ ظاہر ہے یہ عمران اور نواز دونوں کو ہی چیلنج ہے۔ تقریر کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن عملاً دیکھا جائے تو زرداری نے اپنی کشتی خود ہی غرقاب کی ہے۔ 5 سال صدر رہے لیکن ملک کو پستی کی طرف دھکیل دیا، جس کا نتیجہ اُن کی گزشتہ انتخابات میں بُری طرح شکست کی صورت سامنے آیا۔سندھ میں وہ ضرور جیت گئے، اس لئے کہ وہاں لسانی بنیادوں پر ووٹ پڑتے ہیں۔ مقامی سندھیوں اور اُردو دَان طبقوں کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہوچکی ہے، جسے پاٹنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، تعصب بُری طرح پھیل چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کے باوجود اب بھی مہاجروں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔اس کا ایک مظاہرہ تو پاک سرزمین پارٹی کے 14 مئی کے ملین مارچ سے ہوگیا۔10 لاکھ نہ سہی، ایک لاکھ لوگ تو ضرور ہوں گے، پھر پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اور اُن کے ساتھیوں کو زدوکوب کیا گیا، لاٹھی چارج ہوا، آنسو گیس پھینکی گئی۔
طرّہ یہ کہ وزیراعلیٰ نے جو اُس وقت وزیراعظم کے ساتھ چین میں تھے، دوسرے دن واپس آتے ہی، مصطفیٰ کمال کو ایم کیو ایم بانی 2 کے خطاب سے نواز ڈالا۔ مصطفیٰ کمال نے بھی کرارا جواب دیا کہ وزیراعلیٰ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں، اُنہوں نے کراچی کا کیا حال کیا ہے، میئر کو مالی اور انتظامی اختیارات سے کیوں انکاری ہیں، کراچی کے فنڈز کہاں خرچ ہورہے ہیں۔ سندھ میں تو زرداری کی پیپلز پارٹی دوبارہ انتخابات جیت جائیگی، لیکن جس طرح کا خواب سابق صدر دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب میں بھی اُنکی حکومت ہوگی اور خیبرپختونخوا میں بھی، وہ بس خواب ہی رہے گا۔تعبیر بالکل اُلٹی نظر آتی ہے۔ لوگ زرداری کی بات سننے کیلئے تیار نہیں۔ اُن کے مجمعوں میں چند لوگ ہی گنے چنے ہوتے ہیں۔ پارٹی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، تو پھر اُن کی تقریریں دھمکیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کہلائی جاسکتیں۔ زرداری اور پیپلز پارٹی کا مستقبل سابق صدر اور اُنکی بہن فریال تالپور نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا ہے۔ پھر رونا کیسا…؟

شیئر: