Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ کانفرنس سے خطاب میں عرب رہنماؤں نے کیا کہا؟

عرب رہنماوں نے شام کی عرب لیگ میں واپسی کا خیر مقدم کیا ہے( فوٹو: ایس پی اے) 
سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں جمعے کو ہونے والی 32 ویں عرب سربراہ  کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے الجزائر کے وزیر اعظم ایمن بن عبدالرحمن اور دیگر عرب رہنماوں نے خطاب کیا۔
 سبکدوش ہونے والے چیئرمین نے اپنے خطاب میں عرب اتحاد پر زوردیا اور شام کی عرب لیگ میں واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے لیے سعودی عرب کی کوششیں قابل قدر ہیں‘۔
ایس پی اے اور عرب نیوز کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’فلسطین‘ عربوں کا اہم ایشو تھا اور اب بھی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ فلسطینی عوام کے حوالے سے اپنا کردار ادا اور اسرائیلی  آباد کاری کی پالیسی کو رکوائے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ دنیا توانائی کے بحران کے ساتھ بڑھتی پوئی پولرائزیشن سے گزر رہی ہے اورغذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہیں‘۔
انہوں نے سوڈانی بھائیوں سے کہا کہ ’وہ وطن عزیز کے مفاد کو سب سے اوپر رکھیں اور مسائل مکالمے سے حل کریں۔ تشدد سے گریز کریں‘۔
انہوں نے یمن میں بحران کے حل کےلیے کوششوں کی ستائش کی۔
عرب لیگ کے  سیکریٹری احمد ابو الغیط نے کہا کہ’ شامی بحران کے سیاسی حل کا موقع ضائع نہیں ہونے دینا ہے‘۔
انہوں نے سربراہ کانفرنس میں صدر بشار الاسد کی آمد اور عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کےحوالے سے کہا کہ’ یہ ایسا انمول موقع ہے جسے بحران کے  سیاسی حل کے حوالے سے  ضائع کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔‘ 
ابو الغیط نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ’بین الاقوامی منظر نامہ  موجود دنیا میں سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ بین الاقوامی رسہ کشی کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے  عرب مفادات سے مکمل وابستگی کا اظہار کرنا ہوگا۔‘ 
عرب لیگ کے  سیکریٹری نے کہا ’مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی خطرناک سرگرمیوں نے تشدد بھڑکا دیا ہے‘۔ 
 ’قابض اسرائیلی حکام کی انتہا پسندی اور نفرت پر مبنی سرگرمیوں کا مقابلہ  کرنا ہوگا‘۔ 
شامی صدر بشار الاسد نے ایک دہائی بعد عرب سربراہ کانفرنس سے اپنے خطاب میں خطے میں مفاہمت کو فروغ دینے پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ’ ہمیں غیر ملکی مداخلت کے بغیر اپنے مسائل کو حل کرنے کےلیے ایک تاریخی موقع کا سامنا ہے۔
انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ہمیں اپنے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کوروکنا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب میں عرب سربراہ کانفرنس کے انعقاد سے عرب عوام کی امنگوں کے حصول کے لیے مشترکہ عرب جدوجہد مضبوط ہوگی‘۔ 
یمنی صدر ڈاکٹر رشاد العلیمی نے امید ظاہر کی کہ’ سعودی عرب اور ایران  کے درمیان افہام و تفہیم کا یمن پر خوشگوار اثر پڑے گا‘۔
انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ’جدہ سربراہ کانفرنس بحرانوں اور چیلنجوں سے آگے بڑھنے کے سلسلے میں اہم موڑ ثابت ہوگی۔‘   
کویتی ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح نے کہا کہ’ کویت شام کے معاملات میں ہر غیرملکی مداخلت کو مسترد کرتا ہے‘۔
انہوں نے عالم عرب میں شام کی واپسی کی حمایت کی اور کہا کہ ’اسرائیل کی خلاف ورزیاں بیت المقدس کی تاریخی حیثیت کو متاثر کررہی ہیں‘۔  
سوڈانی صدر کے ایلچی دفع اللہ الحاج علی عثمان نے کہا کہ ’نیم فوجی سرکاری گروپ نے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا۔ آبادی میں گھس کر سفارتی مشنوں پر حملے کیے اور مصالحت کے کسی بھی سمجھوتے کا احترام نہیں کیا۔ قیام امن کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ  نیم فوجی دستے ہتھیار ڈال دیں‘۔  
عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے عرب اقتصادی گروپ بنانے پرزور دیتے ہوئے عرب لیگ میں شام کی واپسی اور ایران سعودی معاہدے کا خیر مقدم کیا۔  
لبنانی وزیراعظم نجیب میقاتی نے کہا کہ’ لبنان میں متعدد بحران ہیں اور مشکل حالات سے گزر رہے ہیں‘۔  
لیبیا کے صدر محمد یونس المنفی نے کہا کہ’ سال رواں کے دوران انتخابات کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیبیا کی مسلح افواج کا انتشار ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سفارتی مشن کے ساتھ یکجہتی پیدا کی جارہی ہے۔‘  
فلسطینی صدر محمود عباس ابو مازن نے مسئلہ فلسطین سے متعلق عرب رہنماؤں کے غیر متزلزل موقف کی تعریف کی۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’فلسطینی عوام کو بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے۔ قابض اسرائیلی حکام کا جرائم پر احتساب کیا جائے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں نافذ کرائی جائیں‘۔  
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ ’عرب ممالک ایسے سخت حالات سے گزر رہے ہیں جو حال و مستقبل کے لیے خطرہ ہیں۔ عالمی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ جدوجہد کے لیے تعاون ضروری ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر سوڈانی بحران کو قابو نہ کیا گیا تو طویل کشمکش  سے پورا خطہ متاثر ہوگا‘۔  
مصری صدر کا کہنا تھا کہ’ غزہ میں استحکام کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علاقائی امن کے حصول کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام  ناگزیر ہے۔
تیونس کے صدر قیس سعید نے کہا کہ ’فلسطینی عوام کے خلاف خلاف ورزیوں کو روکنا ہوگا۔ اس حوالے سے عالمی برادری کو اپنی خاموشی ترک کرنا ہوگی‘۔
 انہوں نے کہا کہ ’قومی اداروں کا کردار ختم کرنے کا مقصد عرب ممالک میں انارکی کو ہوا دینا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لیبیا کے عوام  انتخابات کے ذریعے اپنے آج اور کل کا فیصلہ خود کریں‘۔ 
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل  نے خطاب میں کہا کہ’ سوڈان کے حوالے  سے سعودی امریکی اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔
انہوں نے سوڈان کے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ ’وہ قومی مفاد کو اوپر رکھیں۔ ملک کے اتحاد و سالمیت کے لیے کام کریں۔ امن و سلامتی اور معاشی بہتری کے حوالے سے قوم کی امنگیں پوری کریں‘۔   
اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ الثانی نے کہا کہ ’منصفانہ اور جامع امن خود مختار فلسطینی ریاست کے بغیر حاصل نہیں ہوگا’‘۔
‘فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے نکالنے کی کارروائیوں کے ماحول میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘۔ 
اردنی فرمانروا نے عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ ’ہم نے شامی بحران کو حل نہ کرنے پر خبردار کیا تھا۔ اس بحران کی قیمت بڑی مہنگی دینی پڑی‘۔ 
  شاہ عبداللہ الثانی نے عرب ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
تنظیم اتحاد افریقہ کے سربراہ موسی فقیہ نے عرب سربراہوں سے سوڈانی  بحران کے حل کے لیے فیصلہ کن قراردادیں پاس کرنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ’ سوڈان میں قیام امن کے  لیے بین الاقوامی گروپ کی تشکیل ضروری ہے۔ کشمکش اور خونریزی کا سلسلہ سوڈان کے مفاد میں نہیں ہے۔ سوڈان میں تشدد کی مہم جوئی پورے خطے کے لیے پرخطر ہے‘۔  

شیئر: