Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک چین دوستی

ایوب خان سے لے کر موجودہ حکومت تک سب نے بین الاقوامی تعلقات میں چین کی دوستی کو سب سے زیادہ اہمیت دی
* * * * * * خلیل احمد نینی تال والا* * * * * *
آج کل وزیر اعظم پاکستان بشمول چاروں وزیراعلیٰ چین کا دورہ کرکے وطن واپس آچکے ہیں ۔چین کے دورے پر وزیراعظم نوازشریف کی چینی صدر ،وزیراعظم سے ملاقات میں بھاشاڈیم ،گودارپورٹ، حویلیاں ڈرائی پورٹ اور ریلوے ٹریک سمیت 7یاداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ ایم ایل ون شاہراہ کو اپ گریڈ کرنے ،ایسٹ بے ایکسپرس وے کیلئے معاشی وتکنیکی چینی تعاون کی فراہمی پر بھی اتفاق کیا گیا ۔نوازشریف نے چینی صدر و وزیراعظم سے ملاقاتوں میں مزید تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا اور کہا کہ پاکستان کو چین کی دوستی پر فخر ہے۔ سی پیک کے نتائج عام آدمی کو جلد ملنا شروع ہوجائینگے۔
اقتصادی ترقی کے لئے دونوں ممالک ایک صفحہ پر ہیں ۔چینی قیادت نے کشمیر پر بھی بھر پور حمایت کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔جس سے یقینا پاک چین دوستی میں مزید پیشرفت ہوگی ۔چین ہمارا قریب ترین اور عظیم پڑوسی ہے۔پاکستان پر جب بھی کوئی براوقت آیا تو چین نے بھر پور دوستی کا ثبوت دیا ۔چین نے کئی مرتبہ پاکستان کو بیرونی خطرات سے قبل ازوقت آگاہ بھی کیا اور ان سے نمٹنے کا نہ صرف حل بتایا بلکہ اکثر معاملات سے نمٹنے میں مدد بھی کی ۔ ایوب خان سے لے کر موجودہ حکومت تک سب نے بین الاقوامی تعلقات میں چین کی دوستی کو سب سے زیادہ اہمیت دی اور مائوزے تنگ اور چواین لائی سے لے کر چین کے موجودہ حکمرانوں تک سب نے پاکستان کے ساتھ بہترین اور خصوصی تعلقات استوار رکھے اور ان میں اضافے کیلئے وہ آج بھی کوشاں ہیں ۔ آج پاک چین دوستی ،قوموں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے جس مقام پر ہے۔ اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملے گی ۔یہ عظیم دوستی دونوں ملکوں کے دشمنوں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔
آج سے 50سال قبل پہلی بار بیرون ملک جانے کا اتفاق ہوا تو وہ پہلا غیر ملکی سفر چین کا تھا ۔اس زمانے میں ہانگ کانگ کیلئے پی آئی اے کی پرواز چین کے شہر کنٹن کے راستے جاتی تھی۔جہاں ایک رات ٹھہر کر دوسرے دن بذریعہ ٹرین ہانگ کانگ جانا پڑتا تھا ۔کنٹن بہت کھلا کھلا اور صاف ستھرا شہر تھا ۔ اس زمانے میں کراچی اور کنٹن کی آبادی برابر تھی ۔ وہاں صرف ایک ہوٹل تھا جس میں تقریبا 800کمرے تھے ۔ہماری فلائٹ کے تقریباً 50مسافر اس ہوٹل میں ٹھہرائے گئے ۔
باقی تمام فلور خالی تھے انکشاف ہواکہ غیر ملکی فضائی کمپنیوں میں صرف پی آئی اے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ چین کی سرزمین کو استعمال کرسکتی ہے ۔باقی کسی بھی ایئر لائن کی چین آنے یا جانے پر پابندی تھی اور اسی پی آئی اے کا آج یہ حال ہے کہ کبھی اُس کا پائلٹ اسلام آباد سے لند ن کی فلائٹ میں سویا ہوا ملتا ہے اورجہاز معائون پائلٹ چلارہا ہوتا ہے کبھی کسی لڑکی کو کاک پٹ میں بلواکر سفر کررہا ہوتا ہے اورابھی کی ایک خبر ہے کہ لندن میں پی آئی اے کی فلائٹ سے ہیروئن برآمد ہوئی ہے ۔جس سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ۔ خیر میں چین کا ذکر کررہا تھا کنٹن شہر صنعتی اور زرعی بھی تھا ایک طرف فیکٹریاں تھیں تو دوسری طرف سبزہ ہی سبزہ تھا ۔
ہم شام 5بجے ہوٹل کے باہر کھڑے تھے کہ یکایک سیکڑوں سائیکل سوار ہمارے ہوٹل کے آگے سے گزرے جن میں تقریبا ً ہر عمر کے لوگ تھے ۔پی آئی اے کے عملے نے بتایاکہ نزدیکی فیکٹریوں کی چھٹی ہوگئی ہے یہ سائیکل سوار انہی فیکٹریوں کے ملازم تھے ۔ ان سائیکل سواروں نے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور ہم نے بھی ہاتھ ہلاکر اُن کو جواب دیا ۔یہ پاکستان اور چین کے عوام کے درمیان دوستی کے جذبے کا ایک مخلصانہ اظہار تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ علم حاصل کرو چاہے اس کیلئے تمہیں چین جانا پڑے ۔اس کے 2پہلو ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ چین ایک دور افتادہ ملک تھا جہاں پہنچنا ایک دشوارترین کا م تھا لہذا چین کا ذکر اس حوالے سے کیا کہ علم حاصل کرنے کے لئے کیسا ہی طویل اور دشوار سفر کرنا پڑے اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے ۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس زمانے میں چین علم و ہنر اور تہذیب وتمدن میں اس قدر آگے تھا کہ وہاں کا سفر لوگوں کے لئے ضروری تھا ۔
علاج معالجے کیلئے جڑی بوٹیوں ،یوگا، ایکوپنکچر جیسی سہولیتیں میسر تھیں۔ چین کے زمانہ قدیم سے یکتائے روزگار ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت آج بھی دیوار چین کی صورت میں موجود ہے جو دنیا کے 7 عجائبات میں شمارہوتی ہے ۔آج سے 50سا ل پہلے بھی الیکٹرک ٹرینیں شہروں میں آمدورفت کا ذریعہ تھیں ۔چین ایک کمیونسٹ ملک تھا اس لئے تمام کاروبار ،صنعتیں حکومت کی ملکیت تھیں اور عوام اس میں کام کرکے اپنی اور ملک کی ضروریات پوری کرتے تھے ۔گویا ہرشخص سرکاری ملازم تھا ۔کوئی چیز کسی کی ملکیت نہیںتھی۔ حکومت روٹی ،کپڑا اور مکان فراہم کرنے کی ذمہ دار تھی۔ سرکاری طور پر چند گاڑیاں دیکھنے میں آئی ،معلوم ہواکہ یہ بھی صرف غیر ملکی سفیروں اور سربراہوں کی آمد ورفت کیلئے استعمال ہوتی ہیں ۔
پھر چین میں صنعتی انقلاب آیا۔ آہستہ آہستہ ڈی نیشنلائزیشن شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چین میں بڑی صنعتیں لگیں۔غیر ملکی بھی جن میں جاپان اور کوریا کے صنعتکار شامل تھے چین کے شہروں میں صنعتیں لگانے لگے کیونکہ یہاں افرادی قوت وافر اورسستی تھیں۔ چینی عوام بہت محنتی اور ذہین ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے مختصر عرصے میں چین نے سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر چیز بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ۔چینی مصنوعات آج پوری دنیا میں موجود ہیں اور چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز دنیا بھر میں سستے داموں ایکسپورٹ کرکے بھاری زرمبادلہ کمارہے ہیں ۔ معیاری اور کم قیمت ہونے کی وجہ سے چینی اشیاء کی یورپ ،امریکہ اور کئی دوسرے ممالک میں بہت مانگ ہے۔
ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انہوں نے اتنے کم وقت میں کیسے ترقی کی اور ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم صنعتی ترقی کرنے کے بجائے زوال پذیر کیوں ہیں۔ میراخیال ہے کہ ہماری حکومت چینی حکومت کے ساتھ جیسے اب بات چیت کررہی ہے آئندہ بھی ایسے ہی چین سے مدد اور استفادہ کرتی رہے کیونکہ چین دنیا میں اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ہمارے ملک میں مزید سرمایہ کاری کرکے دونوں ممالک کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرے ۔چینی اور پاکستانی عوام میں کئی باتیں مشترک ہیں ۔ دونوں محنتی اور جفاکش ہیں ،ایثار وخلوص کے پیکر ہیں ،ہم نے چینیوں کی دوستی سے وہ فوائد حاصل نہیں کئے جو ہم حاصل کرسکتے تھے اور آج ترقی یافتہ ممالک کی طرح چین کے ہوائی اڈے پر دنیا بھر کی تمام ائر لائنوں کے جہاز آجارہے ہیں ۔کنٹن میں جہاں ایک ہوٹل تھا وہاں آج گلی گلی فائیواسٹار ہوٹل موجود ہیں ۔
جہاں چند گاڑیاں تھیں وہاں آج کشادہ اور صاف ستھر ی سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہیں ۔ہم کہاں کھڑے ہیں ؟اس عظیم پڑوسی کی مخلصانہ دوستی سے بھی کوئی فائدہ اُٹھانے سے محروم ہیں اور ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ۔جہاں امریکہ ،آئی ایم ایف اور ورلڈبینک ہر وقت ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ وہاں چین ہم سے اپنے تعاون کی کوئی قیمت نہیں مانگتااور نہ ہی ڈومور کی تکرار کرتا ہے اور نہ ہی اس نے اپنے اتحادیوں سے کبھی فوجی اڈے یا ایئر بیس مانگے جبکہ اس کا پاکستان میں سی پیک منصوبہ ،بیلٹ اینڈ روڈ کا نظریہ انسانی بھلائی ،اقوام عالم کی عزت نفس اور خودمختاری کے احترام پر مبنی عظیم دستاویز ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

شیئر: