Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کان میں مٹی نہ بن جائے، بھائی کی لاش ملنے پر خوشی ہوگی‘

'جس دن ہمارے بھائی کی لاش ملی وہ ہمارے لیے بڑا خوشی کا دن ہوگا ۔ہم گھر والے خوشی منائیں گے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے۔ '
زندگی کبھی ایسا رُخ بھی لے لے گی کہ اپنے کسی پیارے کی موت کی بُری خبر پر بھی اطمینان حاصل ہوگا۔
قلعہ سیف اللہ کے رہائشی قلم جان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا لیکن اب وہ ایسی ہی بُری مگر اطمینان دینے والی خبر کے انتظار میں گذشتہ 40 دنوں سے بلوچستان کے ضلع دکی کی کوئلہ کی ایک کان کے کنارے بیٹھے ہیں۔
یہ زیرزمین 700 فٹ گہری کوئلے کی کان ہے جہاں ان کے بڑے بھائی شراف خان اور قریبی رشتہ دار عبدالباقی چار مئی کو ایک حادثے کے نتیجے میں پھنس گئے اور مسلسل کوششوں کے باوجود انہیں تلاش نہیں کیا جا سکا۔
قلم جان کے بڑے بھائی شراف خان اور رشتہ دار عبدالباقی کان کن تھے اور گذشتہ کئی برسوں سے کوئٹہ سے تقریباً 220 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع دکی میں مزدوری کررہے تھے۔
 4 مئی کو موسلادھار بارش اور تیز ژالہ باری کے بعد سیلابی ریلہ کان میں داخل ہونے کے بعد وہاں کام کرنے والے تین کان کن پھنس گئے۔
ان میں سے محمد یونس نے بھاگ کر جان بچالی لیکن شراف اور عبدالباقی کو موقعہ نہ مل سکا۔
چھ ہفتے گزرنے کے بعد دونوں کے زندہ تو دور اب مردہ نکالے جانے کی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں۔
اردو نیوز کی ٹیم جب کوئٹہ سے پانچ گھنٹے کا سفر کرکے متاثرہ مقام پر پہنچی تو پھٹے پُرانے کپڑے اور جُوتے پہنے مٹی میں اٹے ہوئے قلم جان اور ان کے رشتہ داروں کے چہروں پر بے بسی اور مایوسی نمایاں نظر آرہی تھی۔
کئی ہفتوں سے ٹھیک سے نیند نہ لینے کی وجہ سے اکثر کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بن چکے تھے۔
نم آنکھوں سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے قلم جان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ہر منٹ ہر لمحہ کرب میں گزر رہا ہے لیکن انتظار کی طویل گھڑیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہمیں اپنے پیاروں کی موت سے زیادہ ان کے بے گور و کفن ہی رہ جانے کی فکر ہے کہیں وہ اسی کان میں مٹی نہ بن جائے۔‘
حادثہ کیسے پیش آیا؟
واقعے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہد محمد یونس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس دن اچانک بہت زیادہ بارش اور ژالہ باری شروع ہوئی۔ ہم تین افراد کان کے اندر کام کر رہے تھے اور اندر ہمیں بارش کا علم نہیں تھا۔
’میں نے کوئلہ بھر کر اوپر موجود انجن ڈرائیور کو گھنٹی بجا کر ٹرالی اوپر کھینچنے کا اشارہ کیا، لیکن کئی بار کی کوشش کے باوجود اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے اوپر آکر دیکھا تو بارش ہو رہی تھی جس کے سبب قریبی کان میں پانی داخل ہو رہا تھا۔‘

مائنز انسپکٹر صابر شاہ کے مطابق ’یہ پتا نہیں کہ مزدور عین کس جگہ موجود ہیں اور یہ کب تک نکالے جا سکیں گے‘ (فوٹو: اردو نیوز)

یونس کے مطابق ’انجن ڈرائیور قریبی کوئلہ کان میں پانی داخل ہونے سے روک رہا تھا۔ میں نے نیچے پھنسے ہوئے اپنے ساتھیوں کو گھنٹی کی مدد سے اوپر آنے کا اشارہ دیا لیکن ان کے اوپر آنے سے پہلے ہی کان میں پانی چلا گیا اور وہ دونوں نیچے پھنس گئے۔‘
علاقے کے مائنز انسپکٹر صابر شاہ کے مطابق ہوا اور آکسیجن کی روانی کے لیے کوئلہ کی کانوں کے درمیان سرنگیں کھودی جاتی ہیں جسے ’ہوائی‘ کہا جاتا ہے۔ قریبی کوئلہ کان میں بارش کا پانی ریلے کی صورت میں داخل ہوا جہاں سے پھر یہ پانی ہوا کے راستے متاثرہ کان تک پہنچا اور دو کان کن پھنس گئے۔‘
ریسکیو آپریشن میں مشکلات
تقریباً 40 دنوں سے جاری مسلسل کوششوں کے باوجود کان کنوں کو کیوں تلاش نہیں کیا جاسکا، اس حوالے سے مائنز انسپکٹر صابر شاہ نے بتایا کہ باقی علاقوں کی نسبت یہاں کانوں کی ساخت پتھریلی کے بجائے کچی مٹی کی ہے اس لیے بارش کا پانی داخل ہونے کے بعد کان کا بیشتر حصہ بیٹھ گیا ہے۔‘
’پانی کی وجہ سے مٹی کیچڑ بن گئی ہے اور ملبہ نکالنے کا کام مزید سخت ہوگیا ہے۔ کان کو سہارا دینے کے لیے استعمال ہونے والی لکڑیاں بھی مشکلات پیدا کر رہی ہیں جنہیں کاٹنا پڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مشکل یہ ہے کہ اب تک اوپر چھت اور اطراف سے پانی رس رہا ہے ۔جب مزدور آگے جاتے ہیں تو پیچھے سے مزید ملبہ گر جاتا ہے جس کی صفائی میں مزید وقت لگ جاتا ہے۔
’کان کے دوبارہ منہدم ہونے اور گیس جمع ہونے کا خطرہ ہر وقت ہوتا ہے اس لیے ہم روزانہ کان کا معائنہ کرکے پھر ریسکیو ورکرز کو اندر جانے دیتے ہیں۔‘

40 دنوں سے جاری مسلسل کوششوں کے باوجود پھنسے ہوئے کان کنوں کو تلاش نہیں کیا جا سکا (فوٹو: اردو نیوز)

چھ چھ گھنٹوں کی شفٹ میں مجموعی طور پر 40 سے 50 مزدور کام کر رہے ہیں اور یہ سب رشتہ دار، قبیلے یا پھر ایک ہی گروہ یعنی مزدور ہونے کے سبب رضاکارانہ بنیادوں پر اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کان کنوں کو تلاش کر رہے ہیں۔
مائنز انسپکٹر کے مطابق ’کبھی کبھار ایک شفٹ میں یعنی چھ سے آٹھ گھنٹوں میں دو فٹ کام ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار پانچ سے آٹھ فٹ کام ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کان کی کل گہرائی 760 فٹ ہے اور ابھی تک ہم نے 640 فٹ کلیئر کرلی ہے، کان کے آخر تک پہنچنے میں مزید 120 فٹ فاصلہ باقی ہے۔‘
’یہ پتا نہیں کہ مزدور عین کس جگہ موجود ہیں، اس لیے ہم کوئی خاص وقت نہیں دے سکتے کہ کب تک یہ افراد نکالے جاسکیں گے۔ مزید کئی دن، ہفتے یا پھر کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔‘
پھنسے ہوئے کان کن کے بھائی قلم جان نے بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں مدد تو دور ان 40 دنوں میں کوئی حکومتی نمائندہ پوچھنے تک نہیں آیا۔ حکومت کی طرف سے بہت کمزوری ہے جتنا وہ ٹیکس اور فوائد لیتی ہے اتنا اس نے کردار ادا نہیں کیا ۔نہ کوئی مشینری فراہم کی گئی۔‘
موقع پر موجود پاکستان لیبر فیڈریشن بلوچستان کے سیکریٹری جنرل پیر محمد کاکڑ نے بتایا کہ ’چلی کی ایک کان میں 2010 میں حادثے کے باعث پھنسے ہوئے مزدوروں کو 60 دنوں کے بعد بھی زندہ نکالا گیا۔‘
’وہاں صدر سے لے کر نیچے تک ساری قوم ایک ہوگئی یہاں کیوں اتنی بے حسی ہے؟ آپ خود سوچیں 40 دن ہوگئے ان کے رشتہ داروں کے لیے تو ہر دن اور لمحہ کرب اور موت کا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے نے صرف ایک خیمہ اور راشن کے چند تھیلے بجھوا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔

پھنسے ہوئے کان کنوں کے بھائی، رشتہ دار اور مزدور اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اردو نیوز)

’حکومت کی جانب سے امداد نہ ملنے پر مزدوروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے ہماری درخواست پر 15 دنوں کے لیے ریسکیو آپریشن میں شریک 25 مزدوروں کو یومیہ دو ہزار روپے معاوضہ، ہیلمٹ، ٹارچ، جیکٹ، جوتے اور دیگر امدادی سامان فراہم کیا ہے۔‘
پیر محمد کاکڑ کے مطابق یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی مزدور تمام کام ہاتھوں سے کر رہے ہیں، ان کے پاس صرف گھینتی، بیلچے ہیں اور وہ ٹین ڈبوں اور بوریوں کی مدد سے ملبے کی صفائی، پانی اور مٹی نکال رہے ہیں۔
مائنز انسپکٹر صابر شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس ایسی کوئی مشینری نہیں جس کی مدد سے زیر زمین کان کے اندر ملبے کی صفائی اور نکاسی کا کام کیا جا سکے اس لیے سارا کام ہاتھوں کی مدد سے کیا جا رہا ہے۔
چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ مائنز انسپکٹریٹ کے پاس ریسکیو آپریشنز کے لیے کوئی بجٹ ہی نہیں ہے۔ 
’ہم نے صوبائی حکومت کو دو کروڑ روپے کی لاگت سے گیس ٹیسٹر، وینٹی لیشن کے لیے پنکھے اور دیگر آلات کی خریداری کی درخواست بھیجی جو محکمہ خزانہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’بلوچستان میں تو اتنے حادثات ہوتے نہیں۔‘
قلم جان نے سوال اٹھایا کہ یہ ایٹمی ملک ہے کیا اس کے پاس ایسی کوئی مشینری نہیں جس سے ریسکیو آپریشن کو تیز کیا جاسکے؟
’کوئی ملک پسماندہ ہو مشینری نہ ہو استعمال نہ ہو تو مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایٹمی ملک ہے یہاں ضرور مشینری ہوگی۔ بلوچستان میں نہیں کسی اور صوبے میں تو ہوگی۔‘

عبدالقدیر کے مطابق ’ہماری والدہ کو حادثے کا علم نہیں، گھر والے جھوٹ بول کر انہیں بہلا رہے ہیں‘ (فوٹو: اردو نیوز)

کوئٹہ کے سینیئر انسپکٹر مائنز محمد عاطف نے چند ماہ قبل ہرنائی میں 105 گھنٹوں بعد تین کان کنوں کو زندہ نکالنے کا ریسکیو آپریشن سرانجام دیا تھا۔
انہوں نے دکی جا کر ایک ہفتے تک ریسکیو آپریشن میں مدد فراہم کی تاہم انہیں بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ 
محمد عاطف نے بتایا کہ اگر کان کنوں کو پانی بہا کر کان کے آخر تک لے گیا ہے تو انہیں تلاش کیا جاسکے گا، تاہم اگر وہ آکسیجن کے لیے بنائے گئے متبادل راستے (ہوائی) میں پھنس گئے تو انہیں نکالنا ناممکن ہوگا کیونکہ ملبہ گرنے کی صورت میں یہ راستے مکمل بند ہو جاتے ہیں۔‘
نیشنل لیبر فیڈریشن دکی کے صدر شیر محمد کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایسا ہی ایک حادثہ 1980 کی دہائی میں بھی دکی کے ناصر کول کمپنی کی کان میں پیش آیا تھا جس میں سات کان کن دب گئے تھے۔
’ان میں سے تین کان کنوں کی باقیات کو ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد نکالا گیا جبکہ چار کان کنوں کو 40 سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں نکالا جا سکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ چار مئی کے حادثے میں پھنسے ہوئے کان کنوں کے لواحقین کو بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں ایسی صورت حال کا انہیں سامنا نہ کرنا پڑے۔
متاثرہ کان کن کون؟
کان میں پھنسے ہوئے دونوں کان کنوں شراف خان اور عبدالباقی کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے باتوزئی کے غریب خاندانوں سے ہے۔ 
شراف خان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں جبکہ عبدالباقی کی ایک بیٹی ہے۔ قلم جان نے بتایا کہ اہل خانہ کو حادثے کا علم ہے اور ان کی حالت بہت خراب ہے، ہم انہیں بے ہوشی کے انجکشن لگا کر آرام دے رہے ہیں۔

صوبے میں 6500 کوئلہ کانوں کے لیے صرف 27 مائنز انسپکٹرز ہیں جو کانوں میں حفاظتی معیارات کی نگرانی کرتے ہیں (فائل فوٹو: اردو نیوز)

دوسرے کان کن عبدالباقی کے بھائی عبدالقدیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ آبائی علاقے میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خاندان دکی آکر کوئلے کی کان کنی کرتے ہیں۔ 
’ہم نو بھائیوں میں سے آٹھ بھائی یہ کام کرتے ہیں۔ روزانہ حادثات اور ساتھیوں کو مرتا دیکھنے اور چند سال پہلے ایک بھائی کے حادثے میں معذور ہونے کے باوجود ہم یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ عبدالباقی بھی ہمارے ساتھ گذشتہ پانچ برسوں سے کان کنی کر رہے تھے۔اس حادثے کے باوجود بھی ہمارے پاس موت کے ان کنوؤں میں کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
عبدالقدیر کے مطابق ہماری والدہ کو حادثے کا علم نہیں، گھر والے جھوٹ بول کر انہیں بہلا رہے ہیں لیکن وہ روزانہ پوچھتی ہیں کہ جب سب کچھ ٹھیک ہے تو 9 کے 9 بھائی اور سارے قریبی مرد رشتہ دار گھر سے کیوں غائب ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ ’نہ گھر جانے کی ہمت ہے اور نہ بھائی کی لاش کو مزید تلاش کی سکت ہے ۔ ہمارے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ سوچ ہی کر سکتہ طاری ہو جاتا ہے کہ بھائی کی لاش نہ ملی تو پھر کیا کریں گے، کہاں جائیں گے، گھر جائیں تو جائیں کیسے؟‘
’ماں، بھابھی اور ان کی بیٹی کو کیا جواب دیں کہ ان کا بیٹا، شوہر اور باپ گیا تو گیا کہاں؟‘
ان کا کہنا تھا کہ اپنے پیاروں کے بچھڑنے پر غم منایا جاتا ہے لیکن ہم اتنے بدقسمت ہیں کہ 40 دن گزرنے کے باوجود بھائی کی تعزیت بھی نہیں لے سکیں۔ یہ صرف اللہ کو پتا ہے کہ یہ لوگ نکالے بھی جائیں گے یا نہیں؟
’ریسکیو آپریشن میں سب لوگ جان پر کھیل کر رضاکارانہ مدد فراہم کر رہے ہیں آخر یہ بھی مزدور لوگ ہیں کب تک ہمارا ساتھ دیں گے؟‘

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق ’بلوچستان میں کوئلے کی کانیں باقی صوبوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عبدالقدیر کا کہنا ہے کہ عید کی چھٹیاں آرہی ہیں ریسکیو آپریشن میں شریک مزدوروں کی تعداد روزانہ کم ہو رہی ہے، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ آخر میں کہیں ہم اکیلے نہ رہ جائیں۔ حکومت کی طرف سے تو کوئی مدد نہیں، عید پر شاید ہم چند بھائی اور رشتہ دار اکیلے ہی یہاں رہ جائیں۔
دکی کوئلہ کان حادثات کے حوالے سے بدنام
بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات اور سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث حادثات معمول ہیں، اس لیے ان کانوں کو موت کے کنویں بھی کہا جاتا ہے۔ 
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان، پاکستان لیبر فیڈریشن اور پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے اعدادوشمار کے مطابق ہر سال آکسیجن کی کمی، گہرائی میں کام کرتے ہوئے کان کی چھتوں یا دیواروں کے گرنے اور زہریلی گیسوں کے جمع ہونے کے نتیجے میں اوسطاً 150 سے 200 کان کن قابل گریز حادثات میں ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوتے ہیں۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق رواں سال بھی بلوچستان میں مختلف حادثات میں 35 کان کنوں کی موت ہوچکی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان کے ضلع دکی کو کوئلے کی کانوں کو کام کے خراب حالات کے لیے بدنام قرار دیا ہے کیونکہ یہاں حادثات کی شرح صوبے کے باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔
نیشنل لیبر فیڈریشن دکی کے ضلعی صدر شیر محمد کاکڑ کے مطابق مذکورہ حادثے کے بعد بھی رواں ماہ کے دوران دکی میں کوئلے کی دو کانوں میں حادثات پیش آچکے ہیں جن میں چار کان کنوں کی موت ہوئی ہے۔ 

حادثات میں بچ جانے والے بہت سے کان کن ٹی بی سمیت سانس، سینے اور پھیپھڑوں کی مہلک بیماریوں سے جان گنوا دیتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ دکی میں حادثات کی بڑی وجہ کانوں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت چلایا جانا ہے۔ کان مالکان اور نجی کمپنیوں نے اپنی کانیں ٹھیکے پر دے کر خود کو حفاظتی انتظامات سے مبرا کردیا ہے۔
ٹھیکیدار حفاظتی انتظامات اور مزدوروں کی جانوں کی پرواہ کئے بغیر صرف منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔ایسی صورتحال میں کان کنوں کے لئے کام کرنے کا ماحول انتہائی ناقص اور غیر انسانی بن گیا ہے۔
مزدور رہنماء کے مطابق کوئلے کانوں میں داخلی راستوں کی لمبائی اور چوڑائی کم ہونے، آکسیجن اور ہنگامی حالات میں نکلنے کے لئے متبادل راستے کی عدم موجودگی، کانوں کو سہارا دینے کے لیے غیر معیاری اور سستی لکڑی کے استعمال اور کام شروع کرنے سے پہلے گیس کی جانچ نہ کرنے کی وجہ سے روزانہ جان لیوا حادثات پیش آتے ہیں۔
بلوچستان میں کان کنوں کا استحصال
محکمہ معدنیات کے مطابق کوئٹہ، مچھ ، ہرنائی، دکی، چمالانگ سمیت بلوچستان میں کوئلے کے اڑھائی سو ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں یہاں کا کوئلہ پاکستان بھر میں اینٹوں کے بھٹوں اور سیمنٹ کے کارخانوں سے لے کر بجلی کے پاور پلانٹس تک کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی چھ ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کانوں میں مختلف اوقات اور موسموں میں چالیس سے ستر ہزار کان کن کام کرتے ہیں جن کی اکثریت خیبر پشتونخوا کے دیر، شانگلہ اور سوات اور افغانستان سے ہے جبکہ مزدور تنظیموں کے مطابق مزدوروں کی یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد ہے تاہم ان میں صرف چند ہزار ہی سماجی تحفظ کے ادارے ای او بی آئی سے رجسٹرڈ ہیں۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق ’حکومتی بے حسی نے مزدوروں کو استحصال اور حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا شکار بنا دیا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بلوچستان کی کوئلہ کانوں سے متعلق نومبر 2022 کی 'فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ' میں کہا گیا ہے کہ صحت کی سہولیات کے فقدان، کان کنی کے قدیم طریقے، پرانی ٹیکنالوجی اور ناکافی حفاظتی آلات کے استعمال کی وجہ سے کان کنوں کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
حکومت کی مسلسل بے حسی نے مزدوروں کو استحصال اور حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا شکار بنا دیا ہے۔
کمیشن کے مطابق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے کوئلے کی کان کنی کی بین الاقوامی سطح پر ایک خطرناک پیشے کے طور پر درجہ بندی کی ہے لیکن اس کے باوجود کان کنوں کی اکثریت کو صحت اور حفاظت کے آلات اور سہولیات دستیاب نہیں اور کان کن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں۔
مزدور تنظیموں کے مطابق حادثات کی بڑی وجہ کانوں میں ان حفاظتی انتظامات اور معیارات کی پاسداری نہ کرنا ہے جو 1923 کے قانون میں لازمی قرار دیئے گئے ہیں۔ صوبے میں 6500 کوئلہ کانوں کے لیے صرف 27 مائنز انسپکٹرز ہیں جو کانوں میں حفاظتی معیارات کی نگرانی کرتے ہیں۔ تعداد کم ہونے اور سکیورٹی خطرات کے باعث مائنز انسپکٹرز کی تمام کانوں تک رسائی نہیں جس کی وجہ سے حفاظتی انتظامات اور کان کنوں کی زندگی پر سمجھوتے ہو رہے ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اپنی ساخت کے لحاظ سے باقی صوبوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں، یہاں اوسطاً کانوں کی گہرائی ایک ہزار فٹ سے چار ہزار فٹ تک ہے۔

نیشنل لیبر فیڈریشن کے مطابق ’رواں ماہ کے دوران دکی میں کوئلے کی دو کانوں میں حادثات میں چار کان کنوں کی موت ہوئی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اتنی گہرائی میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مہلک گیسیں جمع ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کانوں میں دم گھٹ جاتا ہے جو مناسب طریقے سے ہوادار نہیں ہوتیں۔ آتش گیر ہونے کی وجہ سے میتھین گیس کے جمع ہونے سے معمولی غلطی کی صورت میں دھماکے بھی ہوجاتے ہیں اور پوری کان بیٹھ جاتی ہے۔  
پاکستان لیبر فیڈریشن کے صوبائی سیکریٹری جنرل پیر محمد کاکڑ کے مطابق جان سے کھیلنے کے باوجود کان کنوں کو مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ دستاویزات نہ رکھنے والے غیرمقامی کان کنوں کا زیادہ استحصال ہوتا ہے۔ بلوچستان میں خطرات زیادہ ہونے کے باوجود ہلاک یا زخمی ہونے کی صورت میں معاوضے کی شرح باقی صوبوں سے کم ہے۔ زیادہ تر حادثات کے متاثرین کو معاوضہ بھی ادا نہیں کیا جاتا۔
ان کے بقول کان کن اور ان کے بچے تعلیم اور صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ حادثات میں بچ جانے والے بہت سے کان کن ٹی بی سمیت سانس، سینے اور پھیپھڑوں کی مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر جان گنوا دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وفاقی اور بلوچستان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ کوئلے کی کان کنی کو صنعت کا درجہ دے اور حفاظت اور صحت کے معیارات سے متعلق عالمی قانون کی توثیق  کرے۔
کمیشن نے سیفٹی انسپکٹرز کی تعداد میں اضافے اور کارکنوں کی تربیت اور آگاہی کے لیے اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔

شیئر: