Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت، فرانس میں تیسرے روز بھی پُرتشدد احتجاج

ایک پولیس افسر کو گرفتار کر کے ان پر قتل کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد فرانس کے مختلف شہروں میں جمعے کی صبح تیسرے روز پر پُرتشدد احتجاجا کا سلسلہ جاری رہا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعے کو فرانسیسی مظاہرین نے کئی شہروں میں سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کر کے پولیس پر آگ میں لپٹے ہوئے مختلف اشیا کے گولے پھینکے جبکہ پولیس نے جواب میں مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے کارروائی کی۔
یرس کے مغربی علاقے نانتیرے میں جہاں پولیس نے سترہ سالہ ناہیل ایم کو گولی مار کر قتل کیا تھا پولیس کی بکتربند گاڑیاں گشت کر رہی ہیں۔
اس علاقے میں سڑکوں پر درجنوں جلی ہوئی گاڑیوں کی باقیات پڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
فرانس کے مختلف شہروں میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے حکومت نے دسیوں ہزار اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔
مسلسل تین راتوں سے جاری احتجاج کے دوران پولیس نے جمعرات کی نصف شب تک 100 افراد کو حراست میں لیا۔
پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے مظاہرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
دارالحکومت پیرس میں بس اور ٹرام سروسز معطل کی گئی ہیں۔ ایک پولیس افسر کو گرفتار کر کے ان پر قتل کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کی مذمت کی اور لوگوں سے پُرامن رہنے کے لیے کہا۔
اپنی ماں کی واحد اولاد ناہیل ایم گھروں میں کھانا پہنچانے والے ڈیلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے اور رگبی لیگ کھیلتے تھے۔
پولیس نے ابتدائی طور پر واقعے کو مخلتف رنگ دینے کی کوشش کی تاہم جب سوشل میڈیا پر قتل کی ویڈیو وائرل ہوئی تو پیرس سمیت مضافاتی علاقوں میں شہریوں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
ناہیل کے خاندان کا تعلق الجزائر سے تھا۔ پارک ڈی پرنسز سٹیڈیم کے باہر پیرس رنگ روڈ پر ایک بینر لہرایا گیا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’خدا ان پر رحم کرے۔
فرانس کے ایک اور شہر میں ایک نوجوان نے ناہیل کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ عرب یا سیاہ فام ہیں تو یہاں پولیس تشدد روز ہوتا ہے۔‘

شیئر: