Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف ڈیل کے بعد: ماریہ میمن کا کالم

گزشتہ ہفتے پاکستان اور آئی ایم ایف میں تین ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت کی طرف سے معینہ عرصے کے آخری روز آئی ایم ایف ڈیل ہونے کے بعد مبارکباد اور تحسین کا تبادلہ جاری ہے۔ اس طرح کا تاثر دیا جا رہا ہے کہ گویا مشکل ترین مرحلہ سر ہو گیا ہے اور آگے راوی چین ہی چین لکھے گا۔
تلخ سہی مگر حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف  ڈیل بس آئی سی یو سے مریض کی واپسی ہے بلکہ اگر حکومت کے اپنے سرکردہ وزیر کی اصطلاح استعمال کریں تو کہا جا سکتا ہے ابھی بس معاشی وینٹیلیٹر ہی ہٹا ہے۔ مثال کوئی بھی دی جائے مگر سبق یہی ہے کہ معیشت اور حکومت کے لیے ابھی لمبا علاج باقی ہے۔
آئی ایم ایف ڈیل کا یہ پراسیس حکومت، سیاست اور معیشت کے لیے کئی اہم سبق بھی چھوڑ کے جا رہا ہے جن سے آگے لائحہ عمل کا تعین ہو گا۔
سب سے پہلے تو اس آئی ایم ایف ڈیل کے دوران ہوئے مذاکرات اور ان سے جڑی شرائط سے ہماری معیشت کی حیثیت عیاں ہو گئی ہے۔ 22 کروڑ کا ملک اور چند سو ملین کے وعدے جمع کرنے کے لیے ایک سال لگ گیا، درآمدات کو بریک لگانا پڑی، روپے کی قدر نیچے سے نیچے اور مہنگائی اوپر سے اوپر جاتی رہی۔ اتنی جگہ سے قرضہ لیا گیا ہے کہ ایک کو منائیں تو دوسرا متنفر اور اگر دوسرے کی طرف جائیں تو تیسرے کی کڑی شرائط سامنے آ جاتی ہیں۔ ملکی معیشت کا کھوکھلا پن اب اس سے زیادہ کیا کھل کر سامنے آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اگلے ایک سال میں معیشت درست ٹریک پر چڑھ سکے گی یا پھر 9 مہینے بعد بھی یہی صورتحال ہو گی؟
آئی ایم ایف کے ساتھ  ڈیل کے ساتھ جڑی کشمکش نے حکومتی اتحاد کی صلاحیتوں کو بھی آشکار کر دیا ہے۔ حکومت کے اندرونی حلقے آن ریکارڈ اور آف ریکارڈ اس  ڈیل کا سہرہ وزیراعظم شہباز شریف کے سر باندھ رہے ہیں اور بین السطور یہی پیغام ہے کہ یہ معاہدہ وزیر خزانہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی وجہ سے ہوا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق  ڈار بڑے دعوؤں اور امیدوں کے ساتھ لائے گئے مگر روپے کی قدر ہو یا مہنگائی ہر میدان میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نظر نہ آ سکی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تو وہ کوئی خاص پیش رفت تو نا کر سکے، لیکن اسے آڑے ہاتھوں ضرور لیتے رہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ گزشتہ تین مہینوں میں چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سوال یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے میں پورا سال گزر جانا حکومت کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے، جبکہ یہی حکومت عمران خان کو آئی ایم ایف ڈیل سبوتاژ کرنے پر مورد الزام ٹھہراتی رہی۔ کیا ایک سال کا عرصہ گزار کر 9 مہینے کا ریلیف حاصل کرنے کو کامیابی کہا جائے اور اگر نہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر  ڈالی جائے؟
آئی ایم ایف معاہدے کے ملکی سیاست پر بھی نمایاں اثرات ہونے کی توقع ہے۔ اگست میں ہی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور اکتوبر/نومبر میں انتخابات طے ہیں۔ اگرچہ اگر حالیہ تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو طے شدہ تاریخ کی کچھ وقعت رہ نہیں گئی۔ اسی لیے دارالحکومت میں انتخابات کے التوا کی عام چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔
اس معاہدے کے بعد حکومتی حلقوں کی طرف سے انتخابات کی طرف گرین سگنل کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ یہ بات البتہ واضح نہیں کہ حکومتی اتحاد کے اعتماد کی بنیاد کیا ہے، کیونکہ عوام کی فلاح و بہبود یا ریلیف کا تو کوئی ایسا کام اس ایک سال میں نہیں ہوا جس کی بنیاد پر وہ ووٹرز کا سامنا کر سکیں۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کو الیکشن سے باہر رکھ کر وہ انتخاب میں اترنا چاہیں تو اور بات ہے۔

ملک میں بڑھتی مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں حکومت کو 9 مہینے کا قلیل عرصہ ملا ہے۔ 9 مہینے میں الیکشن بھی ہوں گے اور نئی حکومت اقتدار میں آئے گی۔ توقع یہی ہے کہ 9 مہینے بعد بھی یہی شش و پنج ہو گا کہ آئی ایم ایف مان رہا ہے یا نہیں۔
معیشت کو سدھارنے کے لیے جو اصلاحات ضروری ہیں ان کی طرف تو فی الحال کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ ٹیکس کی اصلاحات سے لے کر سرکاری اداروں کے نقصان تک، اور تجارتی خسارے سے لے کر غیر پیداواری اخراجات میں کمی تک، کئی اصلاحات ضروری مگر دور ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر بیرونی اداروں کے علاوہ سب سے پہلے اپنے شہریوں کا اعتماد بحال کرنا جو کسی نا کسی طرح ملک چھوڑ کر نقل مکانی کر رہے ہیں۔
مگر یہ سب دور کی باتیں ہیں ابھی تو اتحادی حکومت کی بھی صرف الیکشن ہی ترجیح ہے۔ باقی آئی ایم ایف ڈیل کے 9 مہینے بعد جو بھی حکومت ہو گی وہ دوبارہ آئی ایم ایف کے در پر پائی جائے گی۔

شیئر: