’مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن کے لیے دباؤ‘، تل ابیب کے پولیس چیف مستعفی
’مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن کے لیے دباؤ‘، تل ابیب کے پولیس چیف مستعفی
جمعرات 6 جولائی 2023 6:19
ایمی ایشد کا کہنا ہے کہ پولیس کے معاملات میں بے جا مداخلت کی جا رہی ہے (فوٹو: دی یروشلم پوسٹ)
تل ابیب کی پولیس کے سربراہ نے اسرائیلی حکومت پر ’مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن‘ کے لیے دباؤ کا الزام لگاتے ہوئے استعفٰی دے دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تل ابیب کے ڈسٹرکٹ کمانڈر ایمی ایشد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی کابینہ میں شامل انتہائی دائیں بازو کے ارکان کی جانب سے انتظامی امور میں بے جا مداخلت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر قومی سلامتی اتامر بن گویر کا نام لینے سے احتراز کیا جنہوں نے سڑکیں بند کرنے والے مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کیا تھا جو ملک کے عدالتی نظام کی ازسرنو ترتیب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
تل ابیب پولیس سربراہ کے اعلان کے بعد سینکڑوں مظاہرین اسرائیل کے جھنڈے اٹھائے باہر نکل آئے اور ’جمہوریت‘ کے نعرے لگاتے ہوئے شہر میں مارچ کیا۔ اس دوران ہائی وے کو بند کیا گیا جبکہ پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں ایمی ایشد نے ایک ’وزارتی عہدے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکتے، جس کے لیے اصول توڑے گئے اور فیصلہ سازی کے امور میں کھلم کھلا مداخلت کی گئی۔
ان کے مطابق ’میں بڑی آسانی سے طاقت کا نامناسب استعمال کرتے ہوئے کسی بھی احتجاج کو ختم کرا سکتا ہوں مگر اس سے تل ابیب کے ہسپتال بھر جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تین دہائیوں کی سروس کے دوران پہلی بار ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جس کا مقصد امن وامان کو یقیی بنانا نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے۔‘
قومی سلامتی کے وزیر اتامر بن گویر جن کی جانب سے مارچ میں ایمی ایشد کو اطلاع دی گئی تھی ان کو پولیس فورس میں ایک نیا عہدہ سونپا جائے گا، نے ایشد کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد کہا کہ ’انہوں نے خطرناک حد عبور کر لی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیل میں سیاست اعلٰی سرکاری عہدوں پر پہنچ گئی ہے اور ایک وردی پوش افسر دائیں بازو کے سیاست دانوں کے سامنے جھک گیا ہے۔‘
ماضی میں دہشت گردی کی حمایت اور اشتعال انگیزی کے لیے سزا پانے اور سخت گیز موقف رکھنے والے بن گویر نے نگراں وزیر کے طور پر کام کے دوران بھی پولیس فورس کے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جس سے پولیس کی آزادی کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے تھے۔
بن گویر نے پچھلے برس دسمبر میں نیتن یاہو کے اتحادی بنے تھے جس پر ملک میں موجود اور بیرون ملک مقیم لبرل اسرائیلیوں میں تشویش پیدا ہوئی تھی۔
ان کا تعلق جیووش پاور پارٹی سے ہے اور وہ مظاہرین کے ساتھ ’برتاؤ‘ پر پولیس افسران کی سرزنش کرتے رہے ہیں۔
نیتن یاہو کی حکومت میں شامل بعض دیگر اتحادیوں نے بن گویر کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پولیس ان مظاہرین کے ساتھ بھی بہتر سلوک کر رہی ہے جنہوں نے جنوری سے تل ابیب کی گلیاں بند کی ہوئی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں سخت موقف رکھنے والوں کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جاتا ہے۔‘