’پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اشارہ نہیں ملا‘
کور کمانڈرز کانفرنس میں پڑوسی ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خطرہ قرار دیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ افغان پناہ گزینوں کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔‘
وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ کے دوران جب امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی سے پوچھا گیا کہ ’پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی سے ملک میں استحکام پیدا ہوا ہے اور افغانستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام دیتے ہوئے کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کا کیا موقف ہے؟
جان کربی نے جواب دیا کہ ’ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ ہم پاکستان کی اس فراخدلی کے لیے شکر گزار ہیں کہ اس نے محفوظ جگہ کی تلاش کرتے افغانوں کو پناہ دی۔ ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے جیسا کہ ہم ان کے دہشت گردی کے حقیقی خطرات اور انسداد دہشت گردی کے چینلجز کے حوالے سے کام کرتے رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں مستقبل میں ہونے والے کسی واقعے کی حوالے سے قیاس آرائی نہیں کروں گا۔ صدر جو بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ ہم اپنی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ہم اسے موثر طریقے سے بروئے کار لاتے ہیں جیسا کہ ہمیں اسے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
گذشتہ روز پیر کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ایک پڑوسی ملک میں ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ اور وہاں سے ان کی ’آزادانہ سرگرمیوں‘ کو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔
فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق ’پیر کو جنرل ہیڈکوارٹرز(جی ایچ کیو) راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں ملک کی داخلی سکیورٹی اور دہشت گردوں کی کارروائیوں سے متعلق بات چیت ہوئی۔‘
’کانفرنس کے شرکا کو ملک کی داخلی سکیورٹی کی صورتحال سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ ایک پڑوسی ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور انہیں دستیاب جدید ہتھیاروں کو بھی نوٹ کیا گیا۔‘
’دہشت گردوں کو میسر ٹھکانوں اور ہتھیاروں کو پاکستان کے سکیورٹی پر اثرانداز ہونے والی بڑی وجوہات قرار دیا گیا۔‘