Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل سپریم کورٹ کو بتائے بغیر نہیں ہونا چاہیے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ زیرِ حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملک میں مارشل لا لگا تو مداخلت کریں گے۔
جمعے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ کے سامنے اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کر سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے مزید بتایا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارچ کیا جاتا ہے اور الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں، اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارچ ختم کر دیا جاتا ہے۔ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا سکتا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے اور سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دو تہائی سے ہونا لازمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہیں اور انہیں اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہو۔ اس پر عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔
چھ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

عمران خان نے شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ  ملٹری ٹراٹل سے پہلے حلف بھی لیا جاتا ہے، یہ حلف کورٹ میں تمام ممبران ایڈووکیٹ اور شارٹ ہینڈ والے بھی لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے، ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے اور کنفرمیشن سے پہلے جائزہ لیا جاتا ہے کہ ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی اور پرائیویٹ وکیل کی بھی ملزمان خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم ملزمان کو فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق دیا جائے گا یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے ایک مہینے کی مہلت مانگی ہے۔
فیصلے کے خلاف اپیل کا حق رکھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف اپیل کے لیے سکیشن 133 موجود ہے، تین ماہ سے زیادہ کی سزا پر 42 دن کے اندر اپیل کر سکتے ہیں اور کورٹ آف اپیل میں بھی جا سکتے ہیں۔
فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر نے دائر کر رکھی ہیں

شیئر: