Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں تاجر سے پانچ کروڑ روپے بھتہ مانگنے والا سوتیلا بھائی نکلا

پولیس نے ملزمان کو پکڑنے کے لیے جال تیار کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
رواں برس جون کے پہلے ہفتے میں لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں ایک ڈاکیے نے ایک گھر کی بیل بجائی اور ایک خط گھر کے ملازمین کے حوالے کیا۔ ملازمین نے خط پڑھے بغیر ہی رکھ لیا۔
یہ گھراظہر حسن نامی ایک کاروباری شخصیت کا ہے جو عرصہ دراز سے ملک سے باہر کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے گھر میں ان کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں۔
خط جب اہل خانہ کے حوالے کیا گیا تو اس میں سنگین الفاظ میں دھمکیاں دی گئی تھیں اور پانچ کروڑ روپے بھتہ مانگا گیا تھا۔
اظہر حسن پہلی ہی فرصت میں پاکستان پہنچے اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’خط کمپیوٹر کے ذریعے اردو میں لکھا گیا تھا اور اس میں انتہائی دھمکی آمیز الفاظ تھے کہ اگر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کی حفاظت چاہتے ہو تو پانچ کروڑ روپے کا بندوبست کرو اور ہمارے اگلے خط کا انتظار کرو۔
اظہر حسن نے بتایا کہ انہوں نے کئی بار خط کو پڑھا اور انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس خط میں ان کے بیٹے کا نام بھی درج تھا جس کی وجہ وہ بہت زیادہ محتاط ہوئے گئے تھے۔
’میں ایک کاروباری شخص ہوں اور کبھی بھی مجھے ایسی کسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ میرے لیے اپنے اوسان بحال رکھنا بھی ایک بڑی بات تھی۔ ابھی میں یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ پولیس کی مدد لینی بھی چاہیے کہ نہیں۔‘
21 جوں کو اس طرح کا ایک اور خط اظہر حسن کے پتے پر موصول ہوا اور یہ پہلے سے زیادہ سخت انداز میں لکھا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اب کی بار اس میں ڈیڈ لائن بھی دی گئی تھی کہ اگر 24 اگست تک پانچ کروڑ روپے کا بندوبست نہ کیا تو بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔ میں نے اس دوران کافی سوچ بچار کر لیا تھا اور بالآخر میں نے پولیس کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ خط میں یہ چیز باور کروائی گئی تھی کہ اگر پولیس کو معاملے میں لایا گیا تو اس کا الگ سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔
کافی سوچ بچار اور مشوروں کے بعد اظہر حسین نے پولیس کو درخواست دے دی۔ تھانہ ڈیفنس بی میں بھتہ خوری، اغوا اور قتل کی دھمکیوں کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

تفتیش کے لیے کیس سی آئی اے کے حوالے

ایف آئی آر کے درج ہوتے ہی پولیس حکام کو اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے اور اس میں کوئی منظم گروہ ملوث ہو سکتا ہے۔
کیونکہ اس سے قبل لاہور کے تاجروں کو اس طرح دن دہاڑے کروڑوں روپے بھتے کے لیے بلیک میلک کرنے کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ کیس پولیس کی کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے آرگنائزڈ کرائم سیل کو بھیج دیا گیا۔
اس کیس کی تفتیش کے لیے ڈی ایس پی فیصل شریف کو چنا گیا۔ انہوں نے اپنے ساتھ اور افسران کی ٹیم بنائی اور پھر اس کیس کی تحقیقات میں جُت گئے۔

کیس سی آئی اے کے آرگنائزڈ کرائم سیل کو بھیجا گیا۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈی ایس پی فیصل شریف نے بتایا کہ ’ایک چیز کا ہم نے سب سے پہلے خیال رکھا کہ مقدمہ درج ہونے کی خبر باہر نہ نکلے۔ خط بھیجنے والوں کی تحریر کو غور سے پڑھنے پر معلوم ہو رہا تھا کہ اگر تو یہ کوئی گروہ ہے تو اس نے پوری ریکی کی ہوئی ہے، اور اظہر حسن کے پورے خاندان سے واقف ہے اور بڑے منظم طریقے سے آپریٹ کر رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملزمان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ اظہر حسن اس وقت کس ملک میں ہیں اور ان کے گھر میں کون کون افراد ہیں۔
’ہمارے سامنے سوائے اس خط کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ خط جنرل پوسٹ آفس سے بھیجا گیا تھا اس پر ایک نمبر بھی تھا اور ایک غلط پتہ بھی درج تھا، جو سبزہ زار کے علاقے کا تھا۔ یہ پہلے دن ہی واضح ہو گیا تھا کہ خط پر درج معلومات جعلی تھیں۔‘

ملزمان کو پکڑنے کا جال

سی آئی اے پولیس نے ملزمان کو پکڑنے کے لیے ایک جال تیار کیا اور ان کے اگلے رابطے کا انتظار کیا۔ جلد ہی بھتہ مانگنے والوں نے پھر رابطہ کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کے پیسے تیار ہیں، یہ بتایا جائے کہ پیسے کیسے اور کہاں پہنچانے ہیں۔
اس دوران پولیس نے اپنے طور پر اظہر حسن کے خاندان کے دیگر افراد سے متعلق جان کاری حاصل کی۔
ڈی ایس پی فیصل شریف کے مطابق ’ایک معلومات ایسی سامنے آئی جس کے بعد ہمیں لگا کہ شاید ہم کیس کو حل کے کرنے کے قریب ہیں۔ اظہر حسن کے ایک سوتیلے بھائی بھی ہیں جن سے بظاہر ان کی بول چال ٹھیک تھی۔ اور اظہر حسن اور ان کی فیملی کو بھی ان پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا۔ تاہم پولیس کے لیے جو بات اہم تھی وہ یہ تھی کہ ان کے سوتیلے بھائی مظہر اقبال عرف شہزاد بھی سبزہ زار کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔‘
خط پر جو پتہ درج تھا وہ مظہر اقبال کے گھر سے بہت دور تھا، صرف علاقے کا نام ایک تھا۔ پولیس نے مظہر اقبال کی ریکی بھی شروع کر دی اور انہیں کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔

ریمانڈ پورا ہونے کے بعد ملزم مظہر اقبال کو عدالت نے جیل بھیج دیا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ڈی ایس پی فیصل شریف نے بتایا کہ ’ریکی کے دوران ہی ہمیں اندازہ ہو گیا مظہر اقبال ہی ملزم ہو سکتے ہیں۔ تاہم انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے ہم نے ان کو یہی بتایا کہ پانچ کروڑ کی رقم تیار ہے اور وہ جگہ بتائیں جہاں پیسے پہنچانے ہیں۔ انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ پولیس انہیں ہر لمحہ مانیٹر کر رہی ہے، اور وہ اس جال میں آ گئے۔‘
پولیس نے مظہر اقبال عرف شہزاد کو پانچ کروڑ روپے وصول کرنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں ہی پکڑ لیا۔ ان سے وہ تمام شواہد برآمد ہوئے کہ کیسے وہ اپنے سوتیلے بھائی کو دھمکا کر پانچ کروڑ روپے ہتھیانے کے چکر میں تھے۔
مظہر اقبال کا گرفتار ہونا اظہر حسن کی فیملی کے لیے بھی ایک دھچکے سے کم نہیں تھا۔ پولیس نے ملزم کا ریمانڈ لینے کے بعد تمام شواہد قبضے میں لے لیے ہیں، جبکہ ریمانڈ پورا ہونے کے بعد مظہر اقبال کو عدالت نے جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس اب کیس کا چالان تیار کر رہی ہے۔

شیئر: