Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اوپن ہائیمر‘ ہیرو تھا یا ولن، فلم دیکھ کر کیا فیصلہ ہوا؟

اس فلم میں ایٹم بم کی تیاری کے ساتھ اوپن ہائیمر کی ذاتی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ فوٹو: سکرین گریب
فلم دیکھنے کے لیے سینما ہال جانے سے پہلے اپنا دماغ دہی کے خالی کونڈے کی مانند رکھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ہدایت کار کرسٹوفر نولن کی فلم نے دماغ کا دہی بلکہ لسی بنا دینی ہے۔ 
مگر دیکھ کر حیرت ہوئی کہ فلم نے نہ صرف اس پرانی روایت کو توڑا بلکہ اس بار مجھے پہلی مرتبہ دیکھنے کے بعد ہی فلم سمجھ میں آ گئی جو کہ ایک حیران کن امر ہے۔ اگر آپ کرسٹوفر نولن کے کام سے واقف نہیں تو آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کی فلمیں کوئی خاص ببل گم کھائے بغیر ہی ’دماغ کی بتی جلا دیتی ہیں۔‘
یہ فلم ایک عام ناظر کے لیے شاید اہمیت کے پیمانے کی بنیاد سے زیادہ اوپر نہ اٹھ پائے اور اگر اٹھی بھی تو ایسا اس لیے ہو گا کہ فلم کی بہت زیادہ ’ہائپ‘ اس کے ریلیز ہونے سے پہلے سوشل میڈیا پر تخلیق کر دی گئی تھی۔ پھر فلم ہے پورے تین گھنٹے کی اور اس میں عام لوگوں کے لیے کوئی ’آئٹم سانگ‘ بھی نہیں ہے۔ لیکن باقاعدہ فلم بینوں اور تنقید نگاروں کے لیے یہ فلم ایک خاصے کی چیز ہے۔
یہ فلم جولیس رابرٹ اوپن ہائیمر نامی امریکن سائنس دان کے بارے میں ہے جن کو ’ایٹم بم کا باپ‘ بھی کہا جاتا ہے اور کائی برڈ اور مارٹن جے شیرون کی پلٹزر انعام یافتہ 2006 میں شائع کی گئی سوانح عمری ’امریکن پرومیتھیس:  جے رابرٹ اوپن ہائیمر کی فتح اور المیہ‘ (The Triumph and Tragedy of J. Robert Oppenheimer) پر مبنی کتاب پر بنائی گئی ہے۔
اس فلم میں ایٹم بم کی تیاری کے ساتھ ساتھ اوپن ہائیمر کی ذاتی زندگی اور ان پر کمیونسٹ ہونے کے الزامات اور اس کی تفتیش کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔
اوپن ہائیمر اپنے ماضی میں بہ شمول اپنی بیوی اور بھائی کے کچھ کمیونسٹ پارٹیوں سے منسلک رہے تھے جس کی وجہ سے امریکیوں کو ان پر شک تھا اور باوجود اتنی محنت اور کامیابی کے انھوں نے اوپن ہائیمر کو سخت تفتیش سے گزارا۔ 
اوپن ہائیمر کا کردار فلم میں کوئی بات لگی لپٹی نہیں کرتا۔ جو بات کرتا ہے ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے جس کی وجہ سے بعد میں اس کو صفائیاں دینی پڑتی ہیں کہ وہی باتیں سٹراس اس کے خلاف استعمال کر کے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔
فلم میں اس بات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ کیا اوپن ہائیمر واقعی ہیرو تھا یا ولن؟ کیا یہ تفتیش اس کے خلاف پروپیگنڈا تھا یا واقعی ان الزامات میں کوئی صداقت تھی؟
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اوپن ہائیمر سے بہرحال ایک غلطی ہوئی تھی کہ وہ ایٹم بم سے ہونے والی تباہی کے اثرات کے بارے میں درست طور پر اندازہ نہیں لگا پایا۔ تو کیا وہ ولن ہوا؟
فلم کے ایک سین میں اوپن ہائیمر کی ملاقات مشہور سائنس دان آئن سٹائن سے بھی دکھائی گئی ہے اور وہ مکالمہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے جو آپ کو فلم دیکھنے پر پتہ چلے گا۔
اس فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک اچھا ہے لیکن بعض مناظر میں اضافی محسوس ہوتا ہے۔ تقریباً ہر سین میں پیچھے مسلسل میوزک بجتا ہے لیکن ایٹم بم کو ٹیسٹ کرنے کے مناظر میں بیک گراؤنڈ میوزک کو انتہائی ڈرامائی انداز میں استعمال کیا گیا ہے جو ان مناظر کا لطف دوبالا کر دیتا ہے۔
47 سالہ آئرش اداکار کیلین مرفی جو اس فلم میں اوپن ہائیمر کا کردار ادا کر رہے ہیں، کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ سنہ 2013 سے 2022 تک چلنے والی 6 سیزنز پر مشتمل سیریز ’پیکی بلائنڈرز‘ میں تھامس شیلبی کے کردار نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔

پیکی بلائنڈرز سیریز سے مشہور ہونے والے اداکار کیلین مرفی فلم کے ہیرو ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ ہدایت کار کرسٹوفر نولن کے پسندیدہ اداکاروں میں سے ایک ہیں اور ان دونوں کی یہ چھٹی فلم اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اس فلم کا یہ کردار بلا شبہ کیلین مرفی کو آسکر ایوارڈ دلواتا نظر آ رہا ہے۔
فلم کے معاون اداکار بھی کسی سے کم نہیں ہیں جن میں مارول کامک یونیورس میں آئرن مین کا کردار نبھانے والے اداکار رابرٹ ڈاؤنی جونیئر کا نام سر فہرست ہے۔ رابرٹ نے اس فلم میں امریکن اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ’لیوس سٹراس‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کردار کی مختلف پرتیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کھلتی ہیں۔
مجھے صرف ایک اداکار ’میٹ ڈیمن‘ اس فلم میں غلط کاسٹ کیا گیا محسوس ہوا جنہوں نے جنرل لیزلی گرووز کا کردار ادا کیا ہے۔ میری رائے میں یہ کردار جارج کلونی یا کسی اور منجھے ہوئے سینیئر اداکار کو دیا جا سکتا تھا۔
فلم کے بہت سے مناظر بلیک اینڈ وائٹ بھی ہیں چناںچہ اسے مکمل رنگین فلم سمجھ کر دیکھنے مت جائیے گا۔ یہ ہدایت کار کرسٹوفر نولن کا فیصلہ تھا کہ فلم کا بیانیہ دو تناظر میں فلمایا جائے گا۔ ایک وہ دور کہ جب اوپن ہائیمر ایٹم بم بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے اور دوسرا وہ کہ جب فلم میں اوپن ہائیمر کا بنیادی مخالف، سٹراس (رابرٹ ڈاؤنی جونیئر) سینیٹ کے سامنے اوپن ہائیمر پر الزامات لگانے کے خلاف اپنا دفاع کرتا دکھائی دیتا ہے۔
آئی ایم ڈی بی پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 9۔8 ہے اور روٹن ٹوماٹوز ویب سائٹ اس فلم کو 93 فیصد کامیاب فلم قرار دے رہی ہے۔
یہ ایک تاریخی یعنی پیریڈ فلم ہے اور اس میں بے تحاشہ مکالمے ہیں جو عام فلم بین کو اکتاہٹ کا شکار بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف فلم کی ایڈیٹنگ، سکرپٹ، اداکاری، میوزک اور ہدایت کاری سحر انگیز ہے جو ایک مکمل سینمائی تجربہ ہے۔ 

شیئر: