Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی آئی اے کی دو حصوں میں تقسیم کا منصوبہ اسے ’ٹیک آف‘ کروا سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق ’جب تک پروفیشنل انتظامیہ نہیں آئے گی، منصوبے کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی بحالی اور اس کو منافع بخش بنانے کے لیے ایک مںصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کو بتدریج ختم کر دیا جائے گا۔  
منصوبے کے مطابق قومی ایئرلائن کو پی آئی اے ون اور پی آئی اے ٹو میں تقسیم کیا جائے گا، اور ایک حصے میں کمپنی کے تمام فعال اور قابل منافع شعبوں کو شامل کیا جائے گا جبکہ دوسرے حصے میں ناکام اور نقصان دینے والے شعبے اور ملازمین شامل ہوں گے۔ 
منافع بخش شعبوں میں طیارے، عمارتیں، اثاثے، اہم امور انجام دینے والے اہل ملازمین، مارکیٹنگ اور تربیت کے معاملات شامل ہوں گے۔
پی آئی اے کے دوسرے حصے جس کو بتدریج ختم کر دیا جائے گا میں قرضوں کے معاملات، ناکارہ مشینری، غیرفائدہ مند ملازمین، فلائٹ کچن، پی آئی اے کی ذیلی غیر منافع بخش کمپنیاں، ایئرپورٹ سروسز اور ایئرپورٹ گراؤنڈ سروسز جیسے معاملات شامل ہیں۔ 
ان میں قرضوں کا معاملہ سب سے اہم ہے کیونکہ اس وقت پی آئی اے کے ذمے تقریباً 750 ارب روپے کے قرضے ہیں جن میں ہر سال مزید اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اس ایئرلائن کے ٹیک آف میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
 اس کے علاوہ گراؤنڈ سروسز اور فلائٹ کچن وغیرہ کے امور کو آؤٹ سورس کرنے اور غیر ضروری شعبوں، مشینری اور ملازمین کو بتدریج سبکدوش کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔ 
تاہم ایک سوال یہ ہے کیا یہ منصوبہ قابل عمل ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار پی آئی اے کی بحالی کے لیے متعدد تجاویز سامنے آچکی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی تجویز پاکستان کی قومی ایئرلائن کو بحرانوں سے نہیں نکال سکی۔ 
منصوبوں سے پہلے پیشہ ور قیادت کی ضرورت 
طارق ابوالحسن پاکستان میں فضائی سروسز کے امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور کئی برسوں سے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے معاملات پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ 
ان کے مطابق پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے لیے اس کی تقسیم نہیں بلکہ پیشہ ورانہ قیادت کی ضرورت ہے جو آج کے ایئرلائن کے کاروبار کی مہارت رکھتی ہو اور اس کو پتا ہو کہ دنیا کی بڑی کامیاب ایئرلائنز کیسے کاروبار کر رہی ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’پی آئی اے کے مسائل 90 کی دہائی میں دیے گیے گولڈن ہینڈشیک سے شروع ہوئے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طارق ابوالحسن نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے کئی منصوبے پہلے بھی بنائے جا چکے ہیں لیکن وہ اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے کہ انتظامیہ ان پر اس طریقے سے عمل درآمد نہیں کروا سکی جس طرح ان کی روح کی ضرورت تھی۔
’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے کی قیادت مارکیٹ کے تقاضوں سے مبرا ہوتی ہے اور اس کے نزدیک کمرشل کاروبار سے زیادہ حکومتوں کی خوشنودی اہم ہوتی ہے۔‘ 
ان کے مطابق ’پی آئی اے کے مسائل کی جڑ اس کے سٹرکچر سے زیادہ سیاسی یا فوجی تعیناتیاں ہیں، جو لوگ اس ایئرلائن سے متعلق فیصلے کرتے ہیں وہ اس کے امور اور ایئرلائن انڈسٹری کی مہارت نہیں رکھتے۔‘ 
طارق ابوالحسن کا مزید کہنا ہے کہ ’پی آئی اے کا اصل بحران اس میں قیادت کی صلاحیتیں نہ رکھنے والی انتظامیہ ہے۔‘ 
’پی آئی اے کے مسائل 90 کی دہائی میں دیے گیے گولڈن ہینڈشیک سے شروع ہوئے جس کے نتیجے میں نہ صرف اس وقت کے تجربہ کار سینیئر ماہرین ایئرلائن چھوڑ کر چلے گیے۔‘
’ان ملازمین کو دیے گئے معاوضوں کے لیے بینکوں سے قرض لیا گیا جو بعد میں غلط فیصلوں کی وجہ سے کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔‘ 

پی آئی اے کے منافع بخش شعبوں میں طیارے، عمارتیں، اثاثے، اہل ملازمین، مارکیٹنگ اور تربیت کے معاملات شامل ہوں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’اب صورت حال یہ ہے کہ اربوں روپے کے قرضوں کی وجہ سے ایئرلائن کو ہر سال خسارہ ہو رہا ہے اور اس کے پاس تجربہ کار پیشہ ور قیادت نہیں جو اندرونی حالات اور کمرشل معاملات سے آگاہ ہو۔‘
’پی آئی اے کے پاس ایسی قیادت نہیں جو اس تناظر میں درست فیصلے کرے۔ حکومتیں پی آئی اے چلانے کے لیے کبھی سیاسی تعیناتیاں کرتی ہیں اور کبھی بری اور فضائیہ کے سابق افسران کی، جن کو ان حالات کی بالکل بھی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔‘ 
’پی آئی اے کا دوسرا بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی بھرتیاں ہیں جنہوں نے قیادت کا یہ خلا پُر نہیں کیا۔‘ 
ان کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کو نہ تو ایئرلائن کے کام کی سمجھ تھی اور نہ ہی اس کو سیکھنے کی کوشش کی اور اب وہ پی آئی اے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن گئے ہیں۔‘ 
طارق ابوالحسن کے مطابق پی آئی اے کی بحالی کا کوئی بھی منصوبہ اسی صورت کامیاب ہو گا جب اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے ایئرلائنز کے بین الاقوامی کاروبار کا تجربہ رکھنے والی ماہر انتظامیہ ہو گی۔ 
’ایک مرتبہ آپ پیشہ ور، ماہر کمرشل انتظامیہ لے کر آئیں، اس کے بعد کوئی بھی منصوبہ آئے تو اس کی کامیابی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے، جب تک پروفیشنل انتظامیہ نہیں آئے گی، کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘ 

نئے منصوبے کے تحت پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو بتدریج ختم کر دیا جائے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’تقسیم نہیں، رعائتی ٹکٹوں اور مفت خدمات کا خاتمہ ضروری‘
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے سینیئر پائلٹ اور ہوابازوں کی ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عمران ناریجو کے خیال میں یہ منصوبہ قطعی طور پر ناقابل عمل ہے۔ 
’اس وقت آپ پی آئی اے سے کسی کو نکال ہی نہیں سکتے، کیونکہ یہاں جتنے بھی ملازمین ہیں وہ آپریشن چلانے میں کہیں نہ کہیں مددگار ہیں۔‘
’اوپر سے آپ کہہ رہے کہ یورپ کی پروازیں دوبارہ شروع ہو رہی ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں مزید عملے اور بہتر سہولیات کی ضرورت ہو گی۔ ایسے میں یہ وسائل کی تقسیم کیسے ممکن ہو گی؟‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’ان بُرے حالات میں بھی پی آئی اے اراکین اسمبلی اور افواج کو ٹکٹس پر 50 فیصد رعایت دے رہی ہے جو دنیا کی کوئی ایئرلائن نہیں دیتی اور پھر چار ارب روپے سالانہ منافع بھی کما رہی ہے جو قرضوں کی واپسی میں جا رہا ہے۔‘ 
’اگر آپ واقعی ایئرلائن کو بہتر کرنا چاہ رہے ہیں تو یہ رعایتیں اور خدمات ختم کریں، مارکیٹنگ بہتر کریں، پیسے قرضوں کی واپسی پر خرچ کرنے کے بجائے مارکیٹنگ اور سہولیات پر خرچ کریں اور سب سے بڑھ کر ایسے پروفیشنل دماغ لے کر آئیں جو پی آئی اے کو بین الاقوامی کاروباری انداز میں چلائیں۔‘ 
کیا ملازمین منصوبے پر عمل درآمد ہونے دیں گے؟ 
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے سینیئر محقق ادریس خواجہ کے مطابق یہ منصوبہ بھی کاغذ پر تو بہت اچھا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کس انداز میں ہوتا ہے اور اس پر ملازمین کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔ 

 ’پی آئی اے کے ذمے تقریباً 750 ارب روپے قرضے اس کے ٹیک آف میں بڑی رکاوٹ ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’یہ تجویز پہلے بھی سامنے آچکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہو پا رہا کیونکہ ملازمین اس کے خلاف ہیں۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ ملازمین اس پر عمل ہونے دیں گے یا نہیں۔‘ 
ادریس خواجہ کا کہنا ہے کہ ’دوسری اہم بات قرضوں کی واپسی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت حکومت قرضوں کی واپسی اپنے ذمے لے گی۔‘
’اگر وہ ایسا کرتی ہے تو پھر حکومت کے مالی بحران میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ اس کے اوپر پہلے ہی بہت زیادہ قرضے ہیں جن کی ادائیگی میں ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔‘ 
’حکومت کے مکمل استقلال کی ضرورت‘ 
گورننس اور گورننگ قوانین پر عبور رکھنے والے حافظ احسان احمد کھوکھر کا خیال ہے کہ اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پی آئی اے کو فوری طور پر بحالی کے ایک ہنگامی منصوبے کی ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق یہ منصوبہ مستقل بنیادوں پر ایک حل ہونا چاہیے نہ کہ وقتی طور پر زبانی دعوے اور کاغذی کارروائیاں۔ 
’یہ منصوبہ عالمی معیار اور حالات کے مطابق ہو، کامیاب معاشی ماڈل اور کمرشل ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو اور اس کے پیچھے حکومت کا مکمل استقلال ہو، یہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہو سکتی ہے۔‘

شیئر: