Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زندگی تماشا‘ میں معاشرے کی ’دوغلی سوچ کی عکاسی‘

سرمد کھوسٹ کے مطابق آزادی کے اس مہینے میں وہ اپنی اس فلم کو بھی آزاد کرتے ہیں۔ (فوٹو: انسٹاگرام)
پاکستانی ہدایت کار سرمد سلطان کھوسٹ نے چار اگست کو دو سال سے سنسر کے تین سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے باوجود سینما ہالوں تک نہ پہنچنے والی فلم ’زندگی تماشا‘ کو یو ٹیوب پر ریلیز کر دیا ہے۔
فلم شروع ہونے سے پہلے سرمد کھوسٹ خود سکرین پر آتے ہیں۔ بہت دل گرفتہ اور آنکھوں میں ایک حسرت لیے کہ وہ فلم جو بڑے پردے کے لیے بنی تھی وہ اس تک پہنچ نہ سکی۔
ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے اس مہینے میں وہ اپنی اس فلم کو بھی آزاد کرتے ہیں، ناظرین کے نام کرتے ہیں۔ فلم کے یو ٹیوب پر ریلیز ہونے کے سات گھنٹے کے اندر اس کے ویوز پچاس ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔
یہ فلم آسکر ایوارڈ کی 93 سالہ تقریب میں پاکستان کی طرف سے شامل کی گئی تھی لیکن اس کا مقابلے میں انتخاب نہ ہو سکا۔
لیکن جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ہونے والے مارچ 2021 کے فلمی میلے میں یہ فلم کم جی-سوک ایوارڈ کی حق دار قرار پائی۔ اس کے علاوہ چار اور ایوارڈ فلم نے اپنے نام کیے جن میں عارف حسن بطور بہترین اداکار بھی شامل ہیں۔
کھوسٹ فلمز کے بینر تلے پیش کی جانے والی اس فلم کی کہانی سرمد کھوسٹ اور نرمل بانو نے لکھی ہے۔ نرمل بانو نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’گنجل‘ کا سکرپٹ بھی انھوں نے لکھا ہے جس میں ڈرامہ پری زاد سے شہرت پانے والے اداکار احمد علی اکبر بھی جلوہ گر ہوں گے۔ فلم کی پروڈیوسر سرمد کی بہن کنول کھوسٹ ہیں جو خود بھی ہدایت کاری اور تھیٹر سے وابستہ ہیں۔
فلم کی کہانی کا مرکزی کردار ’راحت خواجہ‘ نامی شخص کا ہے جو کہ پیشہ ور پراپرٹی ڈیلر ہے اور نعتیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک دوست کے بیٹے کی شادی کے دوران یہ راز کھلتا ہے کہ راحت صاحب کو بچپن میں ناچنے کا بہت شوق تھا۔ بس دوست فرمائش کرتے ہیں اور راحت صاحب زیادہ جھجکے بغیر ایک تھرکتا ہوا آئٹم نمبر پیش کر دیتے ہیں۔ وہیں ان کی گلی کا ایک لڑکا اس ڈانس کی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کرتا ہے جو وائرل ہو جاتی ہے اور راحت خواجہ کا جینا حرام ہو جاتا ہے۔

راحت خواجہ کی معذور بیوی فرخندہ کا کردار اداکارہ سمیہ ممتاز نے ادا کیا ہے۔ (فوٹو: انسٹاگرام)

اس ویڈیو کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں اور ایک نعت خواں کو اس روپ میں دیکھ کر بہت نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ راحت خواجہ کی بیٹی صدف ان سے ناراض ہو جاتی ہے اور خاندان کے ساتھ ساتھ محلے والے بھی ان سے قطع تعلق کرنے لگتے ہیں۔ خواجہ صاحب کو سمجھ نہیں آتی کہ میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ کیا لوگ شادی بیاہ میں ڈانس نہیں کرتے؟ اور  لڑکے لڑکیاں بھی ناچے تھے شادی میں اور ان کے ماں باپ بھی لیکن اس پر تو کسی نے برا نہیں منایا۔
یہاں ان کی بیٹی صدف ان کو اس حقیقت سے روشناس کرواتی ہے کہ ایک طرف آپ نعت خوانی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ یہاں خواجہ صاحب اپنے معاشرے کی دوغلی سوچ پر سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کیا کسی نعت پڑھنے والے نے کبھی کوئی گیت نہیں سنا ہو گا؟ طرز بنانے کے لیے بھی تو راگوں سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن لوگ یہ بات نہیں سمجھتے۔ گلی محلے میں خواجہ صاحب پر پھبتیاں کسی جانے لگتی ہیں اور لوگ ان کو اپنی خوشی اور غم کے مواقع پر بھی بلانا چھوڑ دیتے ہیں۔
راحت خواجہ ایک مولوی صاحب کے مشورے پر معذرت خواہانہ ویڈیو ریکارڈ کرنے کی ہامی بھرتے ہیں لیکن وہ مولوی صاحب ان لوگوں میں سے نکلتے ہیں جنہوں نے مذہبی لبادہ اوڑھ کر مذہب کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ دونوں کی آپس میں جھڑپ ہو جاتی ہے جس کا بہت نقصان راحت خواجہ کو اٹھانا پڑتا ہے۔
راحت خواجہ کی معذور بیوی فرخندہ کا کردار اداکارہ سمیہ ممتاز نے ادا کیا ہے جو بہت سے ڈراموں میں کام کر چکی ہیں جن میں ڈرامہ سیریز ’صدقے تمھارے‘ اور ’میری ذات ذرہ بے نشاں‘ بھی شامل ہیں۔ فرخندہ کا کردار چونکہ زیادہ تر صرف بستر پر لیٹا یا کرسی پر بیٹھا دکھائی دیتا ہے اس لیے زیادہ کام چہرے کے تاثرات پر مبنی تھا جو کہ سمیہ ممتاز نے بہت اچھے سے نبھایا ہے۔
فلم میں اداکار عارف حسن کا کردار راحت خواجہ ہی چھایا ہوا ہے۔ باقی اداکاروں کو بہت کم سکرین ٹائم ملا ہے۔ میری رائے میں فلم کا سارا بوجھ ایک کردار پر ڈالنا ٹھیک نہیں رہا کیوں کہ کافی مناظر میں عارف حسن کا چہرہ تاثرات سے عاری نظر آتا ہے اور دو تین جگہ تو اتنے لمبے پاز ہیں کہ لگتا ہے فلم رک گئی ہے۔ فلم کا دورانیہ 2 گھنٹے 18 منٹ کا ہے تاہم 20 سے 25 منٹ اضافی معلوم ہوتے ہیں۔
فلم کی بہترین سینیماٹو گرافی کے لیے خضر ادریس کو داد دینا بنتی ہے کہ انھوں نے کیمرے کو شاندار زاویوں میں استعمال کرتے ہوئے فلم بندی کی ہے۔ کھلے میدانوں اور قدرتی نظاروں کو تو سب ہی فلما لیتے ہیں لیکن اندرون شہر کی تنگ گلیاں، گھروں کے باہر موجود تھڑے (بیٹھنے کی جگہ) اور گھروں کی آپس میں ملی ہوئی چھتوں پر سے شہر کو مخصوص زاویوں میں فلمانا ان کے لیے آسان کام نہیں رہا ہو گا۔ خضر ادریس اس سے پہلے سرمد کھوسٹ کی فلم ’منٹو‘ میں بھی اپنے کیمرے کے کمالات دکھا چکے ہیں۔
فلم میں بہت سے مناظر کے دوران بیک گراؤنڈ میوزک بہت کمزور ہے جس پر اور محنت ہو سکتی تھی تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے میوزیکل گروپ ساکن نے پیر مہر علی شاہ کے کلام ’آج سک متراں دی‘ کو بہت ہی خوب صورت انداز میں کمپوز کیا ہے جو فلم کی کہانی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
اس فلم کی ریٹنگ آئی ایم ڈی بی 7۔7 ہے جو میری رائے میں بالکل صحیح ہے۔ فلم دیکھنے لائق ہے کیوں کہ یہ ہمارے ملک میں موجود ایک بہت ہی حساس موضوع کا احاطہ کرتی ہے جس پر بات کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ فلم سرمد کھوسٹ کو بجائے سینما گھروں کے یو ٹیوب پر ریلیز کرنی پڑی جس کا قلق ان کو ہمیشہ رہے گا۔

شیئر: