Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی نئی مردم شماری کی منظوری دینے پر کیوں رضامند ہوئی؟

مشترکہ مفادات کونسل نے الیکشن سے قبل نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے (فوٹو: پی ایم آفس)
پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 99 ہزار431 تک پہنچ گئی ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی دیہی آبادی کا حجم 14 کروڑ 77 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ شہری آبادی 9 کروڑ 37 لاکھ 50 ہزارسے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی میں اضافے کی شرح 2.55 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
گذشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے جب نئی مردم شماری پر انتخابات کرانے کا بیان دیا تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا۔ 
پیپلز پارٹی نے بحیثیت جماعت اسے انتخابات ملتوی کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نئی مردم شماری غیر آئینی اور متنازع ہے اس لیے انتخابات پرانی مردم شماری پر اور آئین میں دیے گئے ٹائم فریم کے مطابق ہی ہونے چاہیئں۔ 
سنیچر کے روز جب مردم شماری کی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں منظوری کے حوالے سے حکومتی اعلامیہ سامنے آیا تو مردم شماری کے نتائج کی متفقہ طور منظوری ایک حیران کن خبر تھی۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے تھے کہ سندھ موجودہ مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اچانک سے نئی مردم شماری کے نتائج کو نہ صرف منظور کرنے کے لیے تیار ہوئی بلکہ مشترکہ مفادات کونسل میں وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ ساتھ اپنے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ کی نمائندگی ہونے کے باوجود ووٹ دے کر اس کی متفقہ منظوری کی راہ بھی ہموار کی۔ 

ادارۂ شماریات کے مطابق دیہی آبادی کا حجم 14 کروڑ 77 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ شہری آبادی نو کروڑ 37 لاکھ 50 ہزارسے تجاوز کر گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی موجودہ مردم شماری کو غیر آئینی سمجھتی تھی۔ اس میں سندھ کی تین کروڑ آبادی کم کی گئی ہے۔ جس مشترکہ مفادات کونسل میں دو نگران وزرائے اعلیٰ ہوں اس کو مردم شماری کی منظوری کا اختیار نہیں ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے صرف دو وجوہات کی بنیاد پر مردم شماری کی منظوری کے لیے ووٹ دیا۔ پہلی یہ کہ انتخابات ملتوی کرنے کی سازش کو ناکام بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ ہمارے پاس اس کی مخالفت کرنے کے آپشنز ہی انتہائی محدود تھے۔ اگر ہم عدالت جاتے تو معاملہ لمبا ہو جاتا اور انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے جس کا الزام ہمارے اوپر آتا۔
’وزیراعلیٰ سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بھی تحفظات کا اظہار کیا جبکہ اس معاملے پر وزیراعظم کو پہلے ہی خطوط  لکھے جا چکے ہیں۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’ہمارے اوپر مقتدر حلقوں کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں ان سے کوئی بات چیت ہوئی ہے۔ وہ کم ہی ایسی باتیں کرتے ہیں بس کچھ لوگ کندھوں پر ہاتھ مار کر ان کا نام استعمال کرتے ہیں۔‘ 
جب ان سے پوچھا گیا کہ مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن ہونے کے بعد حلقہ بندیاں بھی ہونی ہیں تو اب تو انتخابات ویسے ہی تاخیر کا شکار ہوجائیں گے تو اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کا کیا موقف ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحات بل میں اس کا حل نکال لیا گیا ہے۔
’پہلے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں کرتے وقت ضلع حدود آڑے آتی تھیں اور انھیں ہر حلقے میں ووٹ برابر کرتے وقت مشکل آتی تھی اور حلقہ بندیوں میں ٹائم لگتا تھا۔ نئے قانون کے مطابق اگر کسی ضلع میں کسی حلقے میں ووٹ کم یا زیادہ ہیں تو ان میں کچھ ووٹ دوسرے ضلع کے حلقے میں شامل کر کے تعداد برابر کی جا سکتی ہے۔ اس لیے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘ 

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم کے نئی مردم شماری سے متعلق بیان پر سخت ردعمل دیا تھا (فوٹو: اے پی پی)

پیپلز پارٹی اور سندھ کی سیاست سے متعلق باخبر صحافی اور تجزیہ کار مجاہد بریلوی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت سندھ میں اپنے اقتدار کے تسلسل کو جاری رکھنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انھوں نے بلوچستان میں قدم جمانے کی کوشش کی تھی لیکن محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک اور ن لیگ کے ممکنہ اتحاد نے پیپلز پارٹی کی اس کوشش کو بھی سردست ناکام بنا دیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’صرف ن لیگ ہی نہیں پیپلز پارٹی بھی انتخابات سے خوفزدہ ہے اور انھیں معلوم ہے کہ سندھ کے علاوہ پورے پاکستان سے انھیں کچھ نہیں ملنے والا اس لیے انھوں نے مناسب سمجھا کہ بے شک انتخابات دیر سے ہوں لیکن سندھ میں ان کا اقتدار بچا رہے اس لیے وہ نئی مردم شماری کی منظوری پر بھی راضی ہو گئے۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں مجاہد بریلوی نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اگرچہ ایک جمہوری جماعت ہے جس میں بڑے بڑے جمہوری رہنما بھی موجود ہیں لیکن اس وقت ان کو جس صورت حال کا سامنا ہے ایسے میں چھوٹے موٹے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں اور پیپلز پارٹی وہ کر رہی ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی بے شک بروقت انتخابات کا مطالبہ کرتی رہے لیکن نئی مردم شماری کی منظوری دیتے وقت انھیں معلوم تھا کہ انتخابات میں تاخیر ہو گی اور غالباً انھیں اس حوالے سے آگاہ بھی کیا جا چکا ہے۔ 
خیال رہے کہ ماضی قریب میں مسلم لیگ ن بھی نئی مردم شماری پر انتخابات کے حق میں نہیں تھی۔
اس حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ایک قانونی عمل مکمل ہو چکا تھا۔ اگر اس وقت اس کی منظوری نہ لی جاتی تو ممکن ہے کہ نئی حکومت اس ساری مشق پر پانی پھیر دیتی اور سارا عمل نئے سرے سے دہرانا پڑتا جو ملکی خزانے پر بوجھ سے سوا کسی بھی تبدیلی کا باعث نہ بنتا۔ 
وزیر قانون نے کہا کہ ’اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ مردم شماری کے نتائج کو آئینی فورم کے سامنے رکھا جائے جس نے غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر اس کی منظوری دی ہے۔ جو کہ خوش آئند عمل ہے کہ وہ فورم جس میں وفاق اور صوبوں کی اعلیٰ ترین سطح کی نمائندگی ہے اس نے ایک متفقہ فیصلہ کیا ہے۔ اب کوئی صوبہ بھی مردم شماری کی آئینی و قانونی حیثیت پر بات نہیں کر سکتا۔‘

شیئر: