Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والے سیاح الاخدود پہنچنے لگے، 24 فیصد غیرملکی

سیاحوں نے یہاں موجود سہولتوں پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ (فوٹو اخبار 24)
موسم گرما کی تعطیلات کے دوران نجران ریجن میں الاخدود تاریخی شہر سعودیوں، مقیم غیرملکیوں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں کے آثار قدیمہ دیکھنے  کے لیے بے شمار لوگ روزانہ کی بنیاد پر پہنچ رہے ہیں۔ 
اخبار 24 کے مطابق الاخدود قریہ نجران کے جنوب مغرب میں 5 مربع کلو میٹر کے رقبے میں واقع ہے۔ یہ دو ہزار برس سے کہیں زیادہ دور کے باسیوں کی کہانی کا عینی شاہد ہے، اس قریے کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ 
الاخدود قریے میں واقع قلعے کی تاریخ 500 قبل مسیح سے تعلق رکھتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قلعہ 500 قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسویں کے وسط تک سے تعلق رکھتا ہے۔ 

چٹانوں پر نقوش اور تصاویر سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ (فوٹو اخبار 24)

الاخدود قریہ مستطیل ہے۔ یہاں شہر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے والی تمام اشیا رہی ہوں گی۔ قلعے کے اطراف 235 میٹر لمبی فصیل ہے۔  
قدیم زمانے میں حفاظت کے  لیے فصیل اور قلعے کا رواج عام تھا۔ جنوبی جزیرہ عرب کے شہرو ں میں قلعے اور فصیلیں حفاظت کے لیے قائم کی جاتی تھیں۔ 
الاخدود قریے میں سیاحتی مرکز قائم کیا گیا ہے یہ 300 مربع میٹر کے رقبے پر بنایا گیا ہے۔

سیاح یہاں صبح 10 سے شام 6 بجے تک آتے ہیں۔ (فوٹو اخبار 24)

یہاں سیر و سیاحت کے لیے آنے والوں کو بنیادی معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔
یہاں روزانہ صبح 10 بجے سے لے کر شام 6 بجے تک سیاحوں کو آنے کی اجازت ہے۔ سنیچر سے لے کر جمعرات تک سیاح آتے ہیں۔ جمعے کو دوپہر ایک بجے سے شام چھ بجے تک یہ علاقہ سیاحوں کے لیے کھولا جاتا ہے۔ 
الاخدود کی تاریخ کے ماہر محمد حریش آل مستنیر نے بتایا کہ ’الاخدود نجران کے اہم تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہاں چٹانوں پر نقوش اور تصاویر سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ سیاح یہاں کے اسرار جاننے کے لیے چٹانوں کے نقوش اور شکلیں دیکھنے آتے ہیں۔ حالیہ ایام میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘ 

سکالرز کام کررہے ہیں امید ہے نئی چیزیں سامنے آئیں۔ (فوٹو اخبار 24)

آل مستنیر نے بتایا کہ ’الاخدود کے علاقے میں ہونے والی کھدائیوں سے بہت ساری عمارتیں اور نقوش دریافت ہوئے ہیں۔ چاندی اور براؤنز کے دو ہزار سکے بھی ملے ہیں۔ عمارتوں کی بنیادوں پر درج نقوش بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں سکالرز ان پر کام کر رہے ہیں۔‘
آل مستنیر نے توقع ظاہر کی کہ ان کے مطالعے سے علاقے کی تاریخ کے کچھ نئے راز سامنے آئیں گے جن سے لوگ اب تک ناواقف ہیں۔
واضح رہے کہ جولائی  2023 کے دوران یہاں 4 ہزار سے زیادہ سیاح آئے۔ ان میں سے 24 فیصد کا تعلق غیر ملکیوں سے رہا۔ سیاحوں نے یہاں موجود سہولیات پر اطمینان اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: