Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ: بلوچستان کی آبادی کم دکھانے پر ڈیجیٹل مردم شماری ہائی کورٹ میں چیلینج

 درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔(فوٹو: اے ایف پی)
ڈیجیٹل مردم شماری میں مبینہ طور پر بلوچستان کی آبادی کم کرنے کے اقدام کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔
کوئٹہ کے شہری حسن کامران ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں وفاق پاکستان، مشترکہ مفادات کو نسل، ادارہ شماریات پاکستان، نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی، نیشنل ٹیلی کام کارپوریشن اور پاکستان سپیس اینڈ ایٹماسپیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کو فریق بنایا گیا ہے۔
 درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سال 2017 میں ملک میں چھٹی مردم شماری کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کی کل آبادی 21 کروڑ جب کہ بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ ریکارڈ کی گئی تاہم بلوچستان میں اس کے نتائج کو متنازع سمجھا گیا-
اس وقت کئی علاقوں میں سیکورٹی و دیگر کی وجوہات کی بنا پر مردم شماری نہیں ہوسکی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق 2023 میں ڈیجیٹل مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی زیادہ ریکارڈ کی گئی- 30اپریل2023ء کو ادارہ شماریات کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بلوچستان کی آبادی  دو کروڑ 94 ہزار جبکہ مئی 2023 کوآفیشل فیس بک آئی ڈی پر بلو چستان کی آبادی 2 کروڑ 63 لاکھ  چار ہزار 606  بتائی گئی۔
 اس کے ساتھ مردم شماری کمشنر بلوچستان نوراحمد پرکانی نے 13 مئی کو بلو چستان کی کل آبادی دو کروڑ سے زائد بتائی- ڈیجیٹل مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو بلوچستان میں سراہا گیا تاہم بعد میں اس میں کٹوتی کی گئی۔
 درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ 5 اگست 2023 کو مشترکہ مفادات کونسل میں بلوچستان کی آبادی صرف صرف ایک کروڑ 48  لاکھ ظاہر کی گئی اور بلوچستان کی آبادی میں 70 لاکھ کٹوتی کی گئی۔ اس سے بلوچستان کے عوام کے حق تلفی ہورہی ہے۔
 درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

شیئر: