Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرانس:سکولوں میں عبایا پہننے پر پابندی کا فیصلہ تنقید کی زد میں

قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے سربراہ ایرک سیوٹی نے عبائے پر پابندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فرانسیسی قدامت پسندوں نے پیر کو سرکاری سکولوں میں بچوں کے عبایا پہننے پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو سراہا ہے جبکہ دوسری جانب اس فیصلے پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور کچھ اس کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فرانس، جس نے 19 ویں صدی کے قوانین کے بعد سے سرکاری سکولوں میں مذہبی علامات پر سخت پابندی عائد کی ہے اور عوامی تعلیم سے روایتی کیتھولک اثر و رسوخ کو ہٹا دیا ہے، تاہم مسلم اقلیت، جس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، سے نمٹنے کے لیے گائیڈ لائنز کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
سیکولرازم کا سخت برانڈ، جسے ’لائیسئٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک حساس موضوع ہے، اور اکثر تناؤ پیدا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔
وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے اتوار کو لگنے والی پابندی کے حوالے سے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’ہمارے سکولوں کو مسلسل آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، اور گزشتہ مہینوں کے دوران لائیسئٹ کی خلاف ورزیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر (طالبات کے) عبایہ اور قمیض جیسے مذہبی لباس پہننے کی وجہ سے۔‘
قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے سربراہ ایرک سیوٹی نے حکومتی اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کے گروپ نے متعدد بار اس کے لیے کہا تھا۔
تاہم انتہائی  بائیں بازو کی فرانس انسومیس کی رکن پارلیمنٹ کلیمینٹائن اوٹین نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’ہمارے سکولوں کو مسلسل آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

فرانس کے سکول پرسپلز کی ٹنظیم نے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ایک واضح رائے کی ضرورت تھی۔
اس کے نیشنل سیکریٹری ڈیڈیئر جارجز نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بس وزرا سے چاہتے تھے کہ وہ ہاں یا ںا کہیں۔ ہم مطمئن ہیں کیونکہ فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ ہم تب بھی اتنے ہی خوش ہوں گے اگر (حکومت) عبایا پہننے کی اجازت دیتی ہے۔‘
دوسری جانب فرانسیسی کونسل آف دی مسلم فیتھ کے نائب سربراہ عبداللہ زکری نے بی ایف ایم ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عبایا مذہبی لباس نہیں ہے، یہ ایک قسم کا فیشن ہے۔‘

شیئر: