Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ادویات کی قلت، ’بحران شدت اختیار کر جائے گا‘

محمد فاروق کے مطابق ’امپورٹ پر پابندی کا اثر بھی ابھی تک مارکیٹ بھگت رہی ہے۔‘ (فائل فوٹو: پکسابے)
پاکستان ان دنوں جہاں مہنگائی کی شدید زد میں ہے وہی عوام کو روزمرہ کے استعمال کی کئی اشیا کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ قلت کا شکار ہونے والی اشیا میں ضروری ادویات بھی شامل ہیں اور اس حوالے سے شہری کافی پریشان ہیں۔
ماضی قریب میں ادویات کی قلت اس وقت ہوئی جب حکومت نے درآمدات پر مکمل پابندی عائد کی تھی۔ تاہم اب صورت حال یہ ہے کہ درآمدات پر پابندی نہیں ہے اس کے باوجود اچانک مارکیٹ سے مختلف ادویات غائب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
ماہم علی کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ذیابطیس کی مریضہ ہیں۔ وہ اس مرض کی دوا گلوکوفیج مسلسل استعمال کرتی ہیں تاہم اب انہیں یہ دوا میسر نہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں شوگر کی ٹائپ ٹو کی مریضہ ہوں اور باقاعدگی سے دوائی کھاتی ہوں۔ گذشتہ ایک ہفتے سے مجھے مختلف میڈیکل سٹورز سے یہ دوا نہیں مل رہی۔ شہر کے مختلف حصوں سے اپنے رشتہ داروں سے پچھلے کئی ہفتوں سے ادھر ادھر تلاش کے بعد منگوا رہی تھی لیکن اب تو بالکل ہی یہ دوائی ملنا بند ہو گئی ہے۔ جس میڈیکل سٹو رپر بھی جاؤ تو وہ آگے سے کہتے ہیں کہ پیچھے سے نہیں آ رہی۔
ماہم علی نے بتایا کہ اس سے پہلے گلوکوفیج کی متبادل دوا بھی ایک دو جگہ سے مل رہی تھی تاہم اب وہ بھی دستیاب نہیں ہے۔
یہ معاملہ صرف ماہم علی کو درپیش نہیں ہے۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمد اعجاز دل کے مریض ہیں اور انہیں دل کے عارضے سے متعلق ایک دوا لیناکسن نہیں مل رہی۔ انہوں نے بتایا کہ ’جس فارمیسی پر جاتے ہیں آگے سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ دوائی شارٹ ہے۔ ہم نے لاہور میں اپنے کچھ جاننے والوں سے کہا کہ وہاں پتا کریں لیکن وہاں سے بھی یہی جواب آیا ہے کہ یہ دوائی دستیاب نہیں ہے۔‘
دواؤں کی مارکیٹ میں قلت کے حوالے سے جب پاکستان میں ادویات کے حوالے سے موجود ریگولیٹری اتھارٹی ڈریپ کے سربراہ عاصم روؤف سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
سیالکوٹ میڈیکل کالج کے شبعہ ادویات کے سربراہ ڈاکٹر سلمان شیروانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جو بھی نسخے لوگوں کو لکھ کر دے رہے ہیں وہ دوائیاں مارکیٹ سے نہیں مل رہی ہیں۔
’صرف آج کے دن تھائرائیڈ کی دوا تھائیرونام، فلیجل، مرگی کی ٹیگریٹال، معدے کے السر کی لوزیک، انٹی بائیوٹک آگمینٹن اور سٹیرائیڈ کینالوگ، یہ وہ دوائیاں تھیں جو میں نے مختلف لوگوں کو ان کے مسائل کے مطابق تجویز کیں، لیکن انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ یہ دستیاب نہیں ہیں۔ صورت حال کافی خراب لگ رہی ہے، انسولین کا بھی یہی حال ہے اس کا کوئی بھی مرکب دستیاب نہیں ہے۔

لگ بھگ 150 ایسی ادویات ہیں جو اس وقت مارکیٹ بالکل بھی دستیاب نہیں ہیں۔ (فوٹو: پکسابے)

ایک بڑی میڈیکل سٹور چین محمود فارمیسیز کے مالک محمد فاروق کے مطابق ایسی ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں جن کی اس سے پہلے کبھی بھی قلت نہیں ہوئی۔ ان کا اشارہ شوگر سے متعلق ادویات سے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی آج ہی میرے اپنے قریبی دوست کا پیغام آیا، ان کو شوگر کی ایک دوائی اپنی اہلیہ کے لیے چاہیے تھی، جب میں نے اپنے پرچیز مینیجر سے کہا تو اس نے بتایا کہ پورے لاہور میں ہماری ایک فارمیسی پر اس کے دو پیک دستیاب ہیں جو میں نے وہاں سے منگوا کر اپنے دوست کو بھجوائیں۔ اور یہ دوائی گذشتہ دو مہینے سے شارٹ ہے۔‘
ملک میں مختلف ڈاکٹروں اور فارمیسز سے بات کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ لگ بھگ 150 ایسی ادویات ہیں جو اس وقت مارکیٹ بالکل بھی دستیاب نہیں ہیں۔
ادویات کی قلت کی وجوہات کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد فاروق کا کہنا تھا کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں: ’ایک تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سامان فراہم کرنے والی کئی بڑی ڈیلر کمپنیاں چھوڑ گئی ہیں۔ آئی بی ایل نے پاکستان میں اپنے آپریشن بند کر دیے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ ڈالر کی قدر کا ایک جگہ پر مستحکم نہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے امپورٹر کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ وہ آرڈر ایک ریٹ پر کرتا ہے لیکن اس کے بعد اس کو دوبارہ ریٹ بدلنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح امپورٹ پر پابندی کا اثر بھی ابھی تک مارکیٹ بھگت رہی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی ادوایات کی قلت کا معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ روز مرہ کے استعمال کی ادویات مارکیٹ سے نہ ملنے کی وجہ سےعوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ماہم علی کے مطابق اس سے پہلے گلوکوفیج کی متبادل دوا بھی ایک دو جگہ سے مل رہی تھی تاہم اب وہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے رہنما عاصم جمیل کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کی وجہ سے امپورٹ کرنے والی ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مقامی سطح پر قیمت نہ بڑھنے کی وجہ سے امپورٹر ادویات امپورٹ نہیں کروا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت مختلف ویکسینز، بے ہوش کرنے کی دوا، گردے کے مرض میں استعمال ہونے والی ادویات اور کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی دواؤں سمیت دیگر ادویات کی مارکیٹ میں قلت ہے اور ملک میں یہ ادویات میسر نہیں ہیں۔‘
عاصم جمیل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے ورنہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

شیئر: