Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکوؤں کی اہلیائیں بھی شوہروں کے شانہ بشانہ

ٹریفک اہلکار اپنا کام یوں کرتے ہیں کہ لٹنے والے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب لٹ گیا
* * * * * عنبرین فیض احمد ۔ کراچی* * * *
ہمارے ہاں ڈاکوؤں اور لٹیروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لٹیروں، چوروں اور ڈاکوؤں کی کئی اقسام پنپ رہی ہیں ۔ غور فرمائیے کہ ڈاکوؤں ایک قسم وہ ہوتی ہے جو صرف اپنی نظریں بینکوں اور صرافہ بازاروں کی طرف ہی لگائے رکھتے ہیں یعنی ایسی جگہوں کو لوٹنے کی تاک میں ہی رہتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو رات کو سوئے ہوئے افراد کے گھروں میں ڈکیتیاں کرتی ہے جبکہ تیسری قسم وہ ہے جو دن دہاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔ ان اقسام کے ڈاکو للکارتے ہوئے گھروں میں گھستے ہیں اور صفایا کرکے چلے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکو بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔آج کل چونکہ خواتین میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا ’’جنون‘‘ شدت اختیار کر چکا ہے چنانچہ ڈاکوئوں کی اہلیائیں بھی اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹانے کے لئے ان کے شانہ بشانہ مصروف ہوچکی ہیں۔
یہی نہیں بلکہ وہ اکثر ڈاکوعورتیںترقی کے حوالے سے ’’غیر ڈاکو‘‘خواتین کو پچھاڑتے ہوئے شوہروں کی مدد کے بغیر بھی ’’ذمہ داریاں‘‘نبھانے نکل جاتی ہیں اور کئی گھروں کی گرہستنوں کولوٹ کر ’’کامیاب‘‘ ہوکر واپس لوٹتی ہیں۔اس میدان میں مرداپنی بیویوں سے کافی پیچھے نظر آتے ہیں۔ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز اس طرح کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ روزانہ ہی ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں علاقے میں ملازمہ نے گھر کا صفایا کردیا یا کسی بہانے گھر میں داخل ہونے والی خواتین نے مکینوں کو بے بس کرکے تمام قیمتی سامان پر ہاتھ صاف کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہر فرد ایک دوسرے کو لوٹنے کی فکر میں نظر آتا ہے۔اگر کوئی سرعام ڈاکے نہ مار رہاہو تو رشوت لے کرلوگوں کو لوٹتا ہے۔ کوئی تاوان کے نام پر اپنی جیبیں بھر تا ہے تو کوئی کسی کام کی انجام دہی کیلئے پیسوں کا طلبگار ہوتاہے۔عرف عام میںبہر حال ایسے افراد کو ڈاکو نہیں کہا جاسکتا۔
ٹریفک اہلکار اپنا کام نہایت باریک بینی اور نفاست سے اس طرح کرتے ہیں کہ لٹنے والے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب لٹ گیا کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شہری بغیر مطالبے کے خود ہی ان اہلکاروں کو رقم کی پیشکش کردیتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ صبح سویرے اپنے کام سے نکلنے والے کو پہلے تو ٹریفک ازدحام سے واسطہ پڑتا ہے پھر ٹوٹی پھوٹی سڑکیں گاڑی کی رفتار بڑھانے نہیں دیتیں۔ ابھی اس صورتحال سے پنجہ آزمائی ہورہی ہوتی ہے کہ کسی موڑ پر اچانک ٹریفک پولیس اہلکار رکنے کا اشارہ کردیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہوتا بلکہ پولیس والے گروپ کی صورت میں " استقبال" کیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔ جب کسی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کر دیاجائے تو سمجھ لیں کہ فرد جرم تو عائد ہو چکی۔ پہلے حکم ملتا ہے کہ گاڑی کے کاغذات اور لائسنس دکھائے جائیں، اگر سب درست ہوں توتفتیش کی جاتی ہے کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ بندہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیتا ہے ، کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسے بے سروپا سوالات پر صبر کا دامن نہ چھوٹنے پائے لہٰذا عاجزی و انکساری سے تمام سوالات کے جوابات دیتے چلے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ انکوائری ختم ہوجائے ایسے میں آپ پسپائی اختیار کرتے ہوئے خود ہی پیشکش کردیتے ہیںکہ صبح صبح کا وقت ہے، بہت ضروری کام سے جانا ہے، پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے کچھ چائے پانی کیلئے رکھ لو، اور جان چھوڑو۔ مالی پیشکش سنتے ہی اہلکار کی امید بر آتی ہے ، کچھ دیر پہلے تک جو لہجہ انتہائی سخت و ترش تھا،وہ فوری طور پر نرم ہوجاتا ہے اور انتہائی لجاجت سے کہا جاتا ہے کہ جی جی ! آپ تو خود ہی سمجھدار ہیں، شکل سے بھی پڑھے لکھے لگتے ہیں۔
جرم تو بہت بڑا ہے لیکن جو اپنی مرضی اور خوشی سے دے سکتے ہیں، دے دیں۔یوں آپ کی دی ہوئی رقم جیب میں ڈالنے کے ساتھ سڑک پر ہی معاملہ حل ہوجاتا ہے۔ نہ جرم رہتا ہے نہ قانون۔ اس کے بعد وہ دوسرے شکار کی طرف خوشی خوشی لپکتا ہے اور آپ نامراد ی کی کیفیات کا شکار ہو کر اپنی منزل کی جانب چل پڑتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ رشوت کی پیشکش تو آپ نے خود ہی کی تھی ورنہ وہ تو اپنی ڈیوٹی انجام دے رہاتھا ، آتی جاتی گاڑیوں کو چیک کررہا تھا جو اس کی روزانہ کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ ایسے سفید پوش ڈاکوؤں کی سرگرمیاں عموماً تہواروں کے موقع پر زوروں پر ہوتی ہے کیونکہ ان کے گھروں کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جس طرح فقیروں کے مانگنے کے لئے مخصوص علاقے ہوتے ہیں ،اسی طرح ان اہلکاروں کے بھی مخصوص پوائنٹ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً ان شاہراہوں اور چوراہوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ٹریفک جام ہونے کا امکان کم ہوتا ہے کیونکہ ایسے میں شکار تاڑنے اور اسے ایک جانب روک کر یعنی ’’دیوار سے لگا کر‘‘ باہمی’’ مذاکرات‘‘ کا آغاز کردیا جاتا ہے۔
یہ مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہوپاتے جب تک گاڑی والے کی جیب ڈھیلی اور پولیس اہلکار کی جیب گرم نہ ہوجائے۔ بس ، وین اور ٹیکسی ، رکشہ ڈرائیور ز تو پولیس اہلکاردکھائی دینے والے ان سفید پوش ڈاکوؤں کو رقم کی ادائیگی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ادھر کسی اہلکار نے اشارہ کیا ،ادھر انہوں نے منہ ہی منہ میں اسے برا بھلا کہتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا اور گاڑی مکمل طور پر روکے بغیر ہی اپنی مٹھی ان کے ہاتھ میں خالی کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ پولیس اہلکار بھی پیسوں کی گرمی محسوس کرتے ہی بہترین اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں کو سیٹیاں مارتے ہوئے دوسری گاڑیوں کو تاڑنا شروع کردیتا ہے ۔
یوں تو ٹریفک اہلکاروں کا کام ٹریفک کنٹرول کرنا ہوتا ہے مگر عام طور پر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ جن سڑکوں اور چوراہوں پر ٹریفک سگنلز نصب ہوتے ہیں وہاں ٹریفک رواں دواں رہتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں ٹریفک سگنل نصب نہیں ہوتے اور پولیس اہلکار اسے کنٹرول کرتا ہے ، وہاںٹریفک میں بے ترتیبی نظر آتی ہے، ٹریفک جام رہتا ہے۔ اپنی سی سخت ترین محنت کرنے کے باوجود ڈرائیور حضرات پولیس کانسٹبل کی سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔
خیر کوئی جتنا بھی ٹریفک پولیس کو برا بھلا کہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے اس دور میں یعنی جب قتل وغارت گری، لوٹ مار، اغوا، ڈکیتی جیسی وارداتوں کی بھرمار ہے ، ہر کسی کو جانی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچایا جارہا ہے، ایسے حالات میں ان بے چارے پولیس اہلکاروں کو دی جانے والی رشوت انتہائی معمولی ہوتی ہے جو ہر شہری آسانی سے ادا کرسکتا ہے۔ ویسے اگر ٹریفک پولیس اپنے فرائض منصبی ادا کرنے پر کمر باندھ لے تو یقین جانیں تمام گاڑی والے روتے رہ جائیں گے کیونکہ یہ اہلکار ٹریفک کی بے شمار خلاف ورزیوں کو پکڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے خواہ آپ اپنی کار یا موٹر سائیکل فٹ پاتھ پر ہی کیوں نہ چڑھا دیں، مخالف سمت میں جائیں ، گھر کے عین سامنے پارک کردیں یا سڑک کے درمیان گاڑی کھڑی کرکے شاپنگ میں مصر وف ہوجائیں، ٹریفک پولیس اہلکار آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ گاڑیوں میں پریشر ہارن لگائیں، موسیقی تیز آواز میں بجتی چھوڑ دیں۔ گاڑی سے دھواں کسی فیکٹری کی چمنی کی طرح خارج ہورہا ہو یا پھر کہیں جلدی جانے کی کوشش میں مقررہ سے دگنی رفتار کردیں، اوور ٹیک کرتے ، ٹریفک سگنلز توڑتے ہوئے آگے سے آگے نکل جائیں، مجال ہے کوئی ٹریفک کانسٹیبل آپ کا پیچھا کرے۔ آپ کیلئے یہ سب کچھ معاف ہے کیونکہ آپ اپنے ملک کے معزز شہری ہیں۔ بس ذرا پولیس والوں سے گرم مٹھی کے ساتھ مصافحہ کرتے رہیں، سمجھ لیجئے کہ تمام ٹریفک مسائل حل ہوگئے ۔

شیئر: