Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

5 سالہ اردنی بچے کی گمشدگی کا معمہ پولیس 14 سال بعد بھی حل نہ کر سکی

بچہ گھر سے روٹی اور حمص لینے نکلا تھا۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)
14 سال سے اردنی بچے ورد الربابعہ کی گمشدگی معمہ بنی ہوئی ہے جو حل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اردن کے عوام اس کی گتھی سلجھانے کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق ورد الربابعہ کی گمشدگی کی کہانی  2009 میں شروع ہوئی تھی۔ اس کی تلاش کی تمام تر کوششیں اب تک بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ 
لاپتہ بچے کے والد عبدالمجید الربابعہ کا  کہنا ہے کہ ’2009 میں گمشدگی کے وقت ان کا بیٹا ورد پانچ سال کا تھا‘۔

مسجد سے بھی گمشدگی کے اعلان کرائے گئے۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

والد کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم شمالی اردن کی اربد کمشنری کے جدیدہ قصبے میں رہتے ہیں۔ گمشدگی والے دن ورد روٹی اور حمص خریدنے کے لیے گھر کے قریب واقع مارکیٹ تک گیا تھا۔ مارکیٹ گھر سے دو سو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن تب سے اب تک وہ واپس نہیں آیا جبکہ سیکیورٹی  فورس کے اہلکار اور قصبے کے باشندے بھی اسے تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں‘۔ 
عبدالمجید الربابعہ نے بتایا کہ ’ان کا بیٹا رشتہ دار بچوں کے ساتھ اپنا وقت گزارا کرتا تھا اور جب اسے موقع ملتا تو دادی سے ملنے چلا جاتا اور وہاں ان کے  ساتھ بیٹھ کر قصے اور کہانیاں سنا کرتا تھا‘۔ 
ورد کے والد نے بتایا  کہ ’واقعے کے روز بیٹے کے ایک گھنٹے تک واپس نہ آنے پر اس کے چھوٹے بھائی عبیدہ نے اطلاع دی کہ بھائی لاپتہ ہوگیا ہے۔ اس پر ہم اسے تلاش کرنے کے لیے بیکری اور قریبی ریستوران تک گئے مگر پتہ نہ چل سکا‘۔ 
الربابعہ نے بتایا کہ ’مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے بچے کی گمشدگی کے اعلان کرائے گئے۔ سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے بھی اس سلسلے میں بھاگ دوڑ کی۔ جاسوس کتوں، طیاروں، سراغرسانوں کی مدد حاصل کی گئی مگر کوئی نتیجہ بنہیں نکلا‘۔ 
ورد کے والد نے بتایا کہ ’ہم جس قصبے میں رہتے ہیں وہ 16 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ قصبے میں جتنی بھی گاڑیاں ہیں سب نے ورد الربابعہ  کی تصاویر چسپاں کرکے اسے  تلاش کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہیں‘۔ 
گمشدہ اردنی بچے کے والد نے مزید کہا کہ ’اسی دوران ورد الربابعہ  کے حوالےسے دسیوں افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔ کئی لوگوں نے دعوی کیا کہ اردن میں انسانی اعضا کا دھندا کرنے والے گروہ سرگرم ہیں انہی میں سے  کسی نے بچے کو اغوا کرلیا ہے‘۔ 
اردنی پولیس کا کہنا ہے کہ ’جب تک اس قضیے کی تمام گتھیاں نہیں سلجھیں گی اس وقت تک ہم اس کیس کی فائل بند نہیں کریں گے‘۔ 
پولیس کا  کہنا ہے کہ ’اردنی تاریخ میں جس بڑے پیمانے پر ورد الربابعہ کی تلاش کی مہم چلائی گئی ہے  اس سے بڑی مہم ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں چلائی گئی‘۔ 
اردنی پولیس انٹرپول سے بھی مدد حاصل کر چکی ہے جب پتہ چلا تھا کہ ورد الربابعہ ملک سے باہر چلا گیا ہے۔  مصنوعی سیاروں سے بھی اس حوالے  سے مدد لی گئی۔ 
عبدالمجید الربابعہ نے 2019 میں کہا تھا کہ  ’انہوں نے اپنے بچے سے متعلق تمام معلومات دفتر خارجہ کو بھی فراہم  کیں۔ کیونکہ ہمیں پتہ چلا تھا کہ ورد الربابعہ مصر میں ہے۔ تاہم وزارت خارجہ نے بتایا کہ قاہرہ کے سفارتخانے نے مصری حکام کی مدد سے ورد کی تلاش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘۔ 
ورد کے والد کا کہنا ہے کہ ‘وہ مایوس نہیں ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچے  کی گمشدگی سے متعلق کوئی نہ کوئی کارروائی کرتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں لاپتہ بچوں کی تلاش والے اشتہارات میں بھی ورد کا نام درج کرایا ہے‘۔ 
 
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: