Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائفر کیس میں ٹرائل شروع، تکنیکی اعتبار سے کیس کتنا مضبوط؟

ایف آئی اے کے چالان میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو) 
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں باضابطہ ٹرائل کا آغاز کرتے ہوئے دونوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ 
پیر کو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے مختصر سماعت میں قرار دیا کہ گواہان کے بیانات ملزمان کو نوٹس جاری کرنے کے لیے کافی ہیں۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ دونوں کی عدالت پیشی کے حوالے سے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ جج ابوالحسنات نے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل چار اکتوبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کرے۔
اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائفر کیس میں چالان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں جمع کروایا تھا۔ جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ 
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عدالت سے چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ٹرائل کر کے سزا دینے کی استدعا کی ہے۔
چالان کے مطابق اسد عمر کو ایف آئی اے نے ملزمان کی فہرست میں شامل نہیں کیا جب کہ سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ایف آئی اے کے مضبوط گواہ بن گئے ہیں۔ ان کا 161 اور 164 کا بیان چالان کے ساتھ منسلک  ہے۔
چالان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھا اور سٹیٹ سیکرٹ کا غلط استعمال کیا۔ سائفر کاپی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس پہنچی لیکن واپس نہیں کی گئی۔ شاہ محمود قریشی نے 27 مارچ کی تقریر کی، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کی معاونت کی۔
خصوصی عدالت میں جمع کروائے گئے چالان کے مطابق سیکریٹری خارجہ اسد مجید اور سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود بھی گواہوں میں شامل  ہیں۔ ان کے علاوہ ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ فیصل نیاز ترمذی بھی ایف آئی اے کے گواہوں میں شامل ہیں۔ سائفر وزارت خارجہ سے لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچنے تک پوری چین کو گواہوں میں شامل کیا گیا ہے۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سائفر کیس قانونی اعتبار سے کتنا مضبوط ہے؟ 

ایف آئی اے نے سابق وزیراعظم عمران خان پر قومی راز افشا کرنے، سائفر کی کاپی اپنے پاس رکھنے سمیت متعدد الزامات عائد کیے ہیں۔
قانونی ماہر عارف چوہدری کہتے ہیں کہ ’سائفر کیس بنیادی طور پر سیاسی مقدمہ ہے۔ قانونی اور تکنیکی اعتبار سے یہ انتہائی کمزور کیس ہے۔ وزیراعظم پر سائفر گم کرنے کا الزام ہے جبکہ وزیراعظم کے پاس جو کاپی تھی وہ ڈی کوڈڈ کاپی تھی۔ اصلی سائفر تو وزارت خارجہ سے کبھی نکلا ہی نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’دوسرا الزام یہ ہے کہ وزیراعظم نے سائفر کو پبلک کیا۔ وزیراعظم کا حلف اس کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جس چیز کو مناسب سمجھے پبلک کر دے۔ اس سلسلے میں اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو لاگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے بجائے کابینہ کا لفظ بھی استعمال کیا جائے تو کابینہ نے سائفر کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کی باضابطہ منظور دی ہے۔
عارف چوہدری نے کہا کہ ’سائفر کے معاملے پر ایک وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سفیر کو ڈی مارش کرنے کا فیصلہ ہوا۔ دوسرے وزیراعظم کی سربراہی میں پہلے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ اس کے بعد سائفر کیس بنانا اور اسے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت میں چلانا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔‘   

اعظم خان بطور سلطانی گواہ؟ 

اب تک سامنے آنے والی صورت حال اور ایف آئی اے کے چالان کے مطابق وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ایف آئی اے کے اہم ترین گواہ ہیں۔ ان کا دفعہ 164 کے تحت بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے اعظم خان نے ابھی تک خود کوئی تصدیق نہیں کی۔ 
جس دن اعظم خان کا بیان میڈیا پر رپورٹ ہوا تھا اس دن کمرہ عدالت میں عمران خان نے بھی کہا تھا کہ ’جب تک اعظم خان کے منہ سے نہ سن لوں یقین نہیں کروں گا۔‘ 

اعظم خان عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔ (فائل فوٹو)

قانونی ماہرین اعظم خان کے 164 کے بیان کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالے سے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں جب تک یہ بیان ملزم کے سامنے ریکارڈ نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ 
ایڈووکیٹ شعیب احمد کا کہنا ہے کہ ’اس کیس میں سرکار کے پاس اعظم خان کے بیان کے علاوہ کچھ خاص نہیں ہے۔ اگر اعظم خان نے عدالت کے سامنے سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی بارے بیان دے دیا تو عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔
ان کے مطابق ’اب تک ایف آئی اے کے چالان کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں۔ اگر وہ عدالت میں اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں دو سے چار سال سزا ہی ممکن ہے۔ اس سے زیادہ سزا دلوانے کے لیے ایف آئے کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق ’اس کیس میں ان کیمرہ سماعت بھی ٹرائل کی شفافیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہو گا۔ اس لیے اگر جلد بازی میں ٹرائل کورٹ سے سزا دے بھی دی گئی تو ہائی کورٹ سزا معطل کرکے مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھائے گی۔‘ 

شیئر: