Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیٹ جی پی ٹی سے انسانی امراض کی درست تشخیص؟ 

چیٹ جی پی ٹی کے بارے میں یہ مت سوچیے کہ یہ ہر چیز سے مکمل طور پر باخبر ہے کیوں کہ اس میں موجود معلومات محدود ہیں (فوٹو: فری پکس)
ہم میں سے جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیماری کی تشخیص کے لیے کسی ماہر معالج سے رجوع کرے اور اس کی ہدایت کردہ ادویات ہی استعمال کرے۔
لیکن مصنوئی ذہانت سے بنے سافٹ ویئر چیٹ جی پی ٹی کے آنے کے بعد بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس طبی ماہرین کی جگہ تو نہیں لینے جا رہی؟
بہت سے ذہنوں میں یقیناً یہ سوال بھی پیدا ہوا ہو گا کہ کیا یہ ٹیکنالوجی بیماری کی درست تشخیص اور علاج تجویز کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے یا نہیں؟
اس سوال کا پیدا ہونا بھی فطری ہے کہ کیا چیٹ جی بی ٹی سے حاصل کی جانے والی معلومات انسانی طبی مہارت کے بغیر مرض کی تشخیص اور درست علاج تجویز کرنے کے تناظر میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ 
اس حوالے سے ماہرین کی آرا کی بنیاد پر تیار کی گئی رپورٹ پڑھتے ہیں اور متذکرہ بالا تمام سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں۔ 

چیٹ جی پی ٹی آپ کی صحت کے لیے کتنی مفید ہے؟ 

چیٹ جی پی ٹی عام نوعیت کے امراض کی معلومات کے لیے خاصی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو اگر نزلہ یا زکام کے اسباب جاننے ہیں تو یہ آپ کو اہم معلومات فراہم کرے گا۔ 
آپ اگر مجوزہ دوائی یا احتیاطی تدابیر اور دوائی کے سائڈ افیکٹس کے بارے میں معلوم کریں گے تو اس کے بارے میں بھی معلومات ظاہر ہو جائیں گے۔ 
چیٹ جی پی ٹی ایک تشخیصی ٹول تو ہے ہی لیکن یہ اس سے بھی بڑھ کر ایک معلوماتی ذریعہ ہے جس سے آپ کسی بھی مرض یا اس کے علاج کے لیے درکار ادویات کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ بات اگر مرض کی درست تشخیص کی ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ماہر معالج ہی سے رجوع کیا جائے۔ 

چیٹ جی پی ٹی سے معلومات حاصل کرنے سے قبل کچھ باتیں  

 چیٹ جی پی ٹی یقینی طور پر بعض حالتوں میں مفید معلومات فراہم کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کہ آپ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مرض کے حوالے سے کچھ معلوم کریں، آپ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے ان چند نکات پر ضرور غور کریں تاکہ کسی بھی مشکل میں مبتلا ہونے سے بچے رہیں۔ 

جزئیات کا ذکر کریں 

چیٹ جی پی ٹی سے معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ اپنی بیماری سے متعلق مکمل معلومات فراہم کریں مثال کے طور پر آپ اگر کھانسی کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اس کی تمام تفصیلات کا ذکر کریں یعنی کھانسی کی نوعیت، اس کا دورانیہ، کھانسی خشک ہے یا بلغمی وغیرہ تاکہ چیٹ جی پی ٹی سے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ 
اس کے علاوہ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی عمومی صحت اور سابقہ امراض سے بھی آگاہ کریں یعنی اگر آپ سانس یا دیگر امراض میں مبتلا ہیں تو اس کا  ذکر بھی لازمی کریں۔ 

چیٹ جی پی ٹی عام نوعیت کے امراض کی معلومات کے لیے خاصی مفید ثابت ہوسکتی ہے (فوٹو: فری پکس)

ذاتی معلومات

یہ درست ہے کہ آپ روبوٹیک سروسز کو اپنی صحت کے حوالے سے مکمل معلومات مہیا کریں مگر اپنی ذاتی معلومات کسی بھی طور پر اس سے شیئر نہ کریں مثال کے طور پر اپنی تاریخ پیدائش اور وہ ادویات جو آپ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ یہ معلومات روبوٹ تیار کرنے والی کمپنی تک پہنچتی ہیں۔
اس لیے اگر سوال کرنا ہی ہے تو اس کا انداز کچھ یوں ہونا چاہیے ’میرا ایک دوست ہے اس کی عمر 60 برس کے قریب ہے اسے خشک کھانسی ہے اس کی تشخیص کے لیے کون سے ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں؟‘ وغیرہ ۔۔۔

خود کھوج لگائیں

اپنے مرض یا بیماری کے بارے میں معلومات خود تلاش کریں تاکہ چیٹ سے ہونے والی معلومات کا ان سے موازنہ کیا جا سکے۔ 
ماہرین یہ تجویز دیتے ہیں کہ آپ ان حاصل کردہ معلومات پر ہی یقین کریں جو باوثوق حکومتی یا تعلیمی ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں اور یہ معلومات زیادہ پرانی نہ ہوں۔ 
آپ نے اگر چیٹ جی پی ٹی سے کچھ طبی مشورے حاصل کیے بھی ہیں تو انہیں اپنے معالج کے سامنے پیش کریں کیونکہ انسانی ذریعہ ہر حال میں قابل اعتماد ہوتا ہے۔ 

چیٹ جی پی ٹی سے حاصل ہونے والے طبی مشوروں پر یقین؟ 

جیسا کہ متذکرہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ صحت اور مرض کے حوالے سے چیٹ جی پی ٹی سے حاصل ہونے والے مشورے کو حتمی قرار نہیں دینا چاہیے بلکہ اسے صرف معلوماتی ذریعہ سمجھ کرحتمی فیصلہ اپنے معالج کا ہی مانیں۔ 

محدود معلومات  

چیٹ جی پی ٹی کے بارے میں یہ مت سوچیے کہ یہ ہر چیز سے مکمل طور پر باخبر ہے کیوں کہ اس میں موجود معلومات محدود ہیں جو ستمبر 2021 تک کی ہی ہیں تاہم چیٹ جی پی ٹی کے مالکان اسے اَپ ڈیٹ کرتے رہیں گے۔ 
نیز یہ کہ جی پی ٹی کو سرچ انجنوں یا ورلڈ وائڈ ویب تک براہ راست رسائی حاصل نہیں اس میں مختلف ذرائع بشمول کتابوں، ویب سائٹس اور اسی طرح کے دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کا پروگرام کام کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ روبوٹ آپ کے لیے کچھ نتائج جمع کرتا ہے تاہم حاصل شدہ مواد کی درستی کے بارے میں اسے خود بھی علم نہیں ہوتا۔ 

غلط معلومات

آپ کوئی سا بھی سوال کریں تو چیٹ جی پی ٹی اس بارے میں آپ کو معلومات فراہم کر دے گا تاہم ان معلومات کے درست ہونے پر مکمل یقین نہیں کیا جا سکتا۔ 
ڈیجیٹل ہیلتھ میگزین ’پی ایل او ایس‘ کی ایک تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی کا اس حوالے سے ’یو ایس ایم ایل ای‘ نے ٹیسٹ لیا جس میں سوالات کے جوابات 50 فیصد تک درست پائے گئے جس کے باعث غلطی کا امکان موجود ہے۔ 
اگرچہ چیٹ جی پی ٹی آزادانہ طور پر مواد کی تحقیق یا تصدیق نہیں کرسکتا۔ تاہم، اس حوالے سے بعض طبی جریدے جن میں جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن بھی شامل ہے، کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ سائنسی تحقیقی کاوشوں کو صرف انسانوں کے ذریعے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے لہٰذا طبی مشوروں کے لیے چیٹ جی پی ٹی کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے تاکہ اس کے جوابات کا تجزیہ وسیع پیمانے پر کیا جا سکے۔ 

جسمانی معائنے کا نہ ہو پانا 

طبی تشخیص کا انحصار محض ان علامات پر نہیں ہوتا جسے مریض بیان کرے بلکہ اس کے لیے جسمانی معائنہ کرنا اور ڈاکٹر کا براہ راست مریض کی حالت کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ 

ڈاکٹروں اور ماہرین طب کی ہرصورت میں ضرورت رہے گی جو مریض کا جسمانی معائنہ کرنے کے بعد ہی مرض کی تشخیص کرنے پر قادر ہیں (فائل فوٹو: میش ایبل)

یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ مرض کے حوالے سے دریافت کی جانے والی معلومات بنیادی نوعیت کی ہوتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چیٹ کے ذریعے جسمانی معائنہ نہیں ہوتا جب کہ ڈاکٹر مریض کا جسمانی معائنہ بھی کرتا ہے جس کے بعد اس کے مرض کی درست تشخیص کی جاتی ہے چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی سے حاصل ہونے والی معلومات بعض اوقات غلط ثابت ہوسکتی ہیں۔ 

چیٹ جی پی ٹی کی ساخت

یہ حقیقت ہے کہ چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت کے ایک لسانی ماڈل کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جو متن کو یاد کرکے اس کے ذریعے جوابات دیتا ہے اور مریض کا معائنہ یا اس کی جسمانی حالت کا مطالعہ نہیں کرتا۔ چنانچہ اسے مرض کی تشخیص کے لیے کافی نہیں سمجھا جا سکتا۔ 

کیا چیٹ جی پی ٹی ڈاکٹروں کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے؟ 

ڈاکٹروں اور ماہرین طب کی ہرصورت میں ضرورت رہے گی جو مریض کا جسمانی معائنہ کرنے کے بعد ہی مرض کی تشخیص کرنے پر قادر ہیں۔ عام طور پر آپ جب چیٹ سے طبی مشورہ طلب کرتے ہیں تو وہ آخرمیں یہی کہتا ہے کہ اپنے معالج سے بھی مشورہ کریں۔ 
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ڈاکٹروں کا شیڈول مرتب کرنے یا مریض کی معلومات محفوظ کرنے کے علاوہ اس کی مدد کرنے کی حد تک معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہیں تاہم یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ ڈاکٹروں کی متبادل بن جائے۔ 
آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کسی بھی مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے مصنوعی ذہانت پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تاہم آپ اگر کسی حد تک اس سے معلومات حاصل کرتے ہیں تو اس بارے میں بھی اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔ 

شیئر: