Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ٹیم انڈیا چیمپیئنز ٹرافی کے اعزاز کا دفاع کرسکے گی؟

اس مرتبہ پاک ہند کی ٹیمیں نئے کپتان کی قیادت میں ایک دوسرے کا سامنا کرینگی، اصل مقابلہ بولنگ اٹیک اور ہندوستانی بیٹنگ میں ہوگا
سید اجمل حسین ۔ نئی دہلی
چیمپیئنز ٹرافی میں ٹیم انڈیا کی شرکت کے حوالے جو خدشات تھے وہ تو دور ہو گئے لیکن اب جو سب سے بڑا سوال ہے وہ یہ کہ کیا ٹیم انڈیا چمپئنز ٹرافی کے اعزاز کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے گی پھر انگلستان میں بھی اس کی وہ ناکامی اس کے تعاقب میں رہے گی جس کا اس کو 2015کے ورلڈ کپ میں عالمی چمپئین شپ کے اعزاز کا دفاع کرنے میں منہ دیکھنا پڑا تھا۔اس بار چیمپئینز ٹرافی کاآغاز وہ اپنے ایک مضبوط اور روایتی حریف پاکستان کے خلاف میچ سے کر رہا ہے اور اس میچ کےلئے کرکٹ شوقینوں کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خبریں یہ ہیں کہ اس میچ کی تمام ٹکٹیںآن لائن کھڑکی کھلتے ہی فروخت ہو گئیں۔شوقینوں کی دلچسپی ہونا فطری بات ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ بعد دونوں ملکوں کے درمیان کوئی ون ڈے میچ کھیلا جانا ہے۔ ا س بار دونوں ٹیمیں نئے کپتان کی قیادت میں ایک دوسرے کا سامنا کریںگی۔ مہندر سنگھ دھونی کی جگہ ویراٹ کوہلی ٹیم انڈیا کی قیادت کر رہے ہیں تو پاکستان کے وکٹ کیپر بلے باز سرفراز کے کندھوں پرٹیم کی قیادت کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ٹیم انڈیا تو چند تبدیلیوں کے ساتھ کم و بیش انہی کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ چمپئینز ٹرافی میں کھیل چکے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی ٹیم میں زیادہ تر نئے کھلاڑی ہیں۔ ان میں بھی اکثریت ہندوستان کے خلاف کبھی کوئی میچ نہ کھیلنے والوں کی ہے۔ علاوہ ازیں آئی سی سی کے کم و بیش تمام ٹورنامنٹوں میںپاکستان کے خلاف ٹیم انڈیا کا عمدہ ریکارڈ ٹیم انڈیا کے حق میں پلس پوائنٹ ہے لیکن ادھر ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کی تاریخ ساز کامیابی جو اس نے اسی کی سرزمین پر کھیلتے ہوئے حاصل کی پاکستانی کھلاڑیوں کا مورال بلند رکھنے اور پاکستانی کرکٹ شوقینوں کی امیدیں روشن رکھنے کو کافی ہیں۔ٹیم انڈیا کے بلے بازوں کو پہلی بار محمد عامر اور حسن علی جیسے فاسٹ اور19سالہ شاداب خان جیسے لیگ اسپنر کا سامنا کرنا ہو گا۔اگر یہ کہا جائے کہ اصل مقابلہ پاکستانی بولنگ اٹیک اور ہندوستانی بیٹنگ کی صف میں ہے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ ہندوستان کی بیٹنگ صف ویراٹ کوہلی، روہت شرما، شیکھر دھون، یوراج سنگھ، اجنکیا رہانے اور مہندر سنگھ دھونی اور لوور آرڈر میں رویندر جڈیجہ، آر ایشون اور ہردیک پانڈیا پر مشتمل ہے۔جو کسی بھی بولنگ اٹیک کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصل فاسٹ بولنگ اور عمدہ اسپن خاص طور پر لیگ اسپن بولنگ اس کی ہمیشہ سے ہی کمزوری رہی ہے۔ دونوں ٹیموںکے درمیا ن محمد عامر اور شاداب خان ایک بڑا فرق ثابت ہو سکتے ہیں۔2013کی چمپئینز ٹرافی میںٹیم انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ تقریباً یکطرفہ ہی رہا تھا کیونکہ پاکستان کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے محض165رنز ہی بنا سکی تھی۔ ٹیم انڈیا نے یہ ہدف 19اوورز میں ہی پورا کر لیا تھا۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میچ میں اپنی سوئنگ بولنگ سے میچ کا رخ ٹیم انڈیا کے حق میں کرنے والے بھونیشور کمار اس بار کیا احمد شہزاد، اظہر علی، اور عماد وسیم اور خاص طور پر نئی سنسنی بابر اعظم پر قابو پاسکیں گے ۔ یہ پاکستانی بیٹنگ صف کے وہ بلے باز ہیں جو کسی بھی بولر کی بولنگ اینالسس بگاڑ سکتے ہیں۔اسی طرح محمد عامر، حسن علی اور شاداب خان ہندوستانی بیٹنگ صف کے خاص طور پر شیکھردھون اور روہت شرما پر روک لگا سکیں گے یا انہیں مڈل آرڈر کو ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرنے کا موقع دیں گے کیونکہ شیکھر دھون ہی تھے جنہوں نے 2013کی چمپئینز ٹرافی میں ہر قسم کے حالات میں عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرکے نہ صرف مین آف دی سریز کا اعزاز پایا تھا بلکہ رنز کا انبار لگا کر ٹیم انڈیا کو چمپئینز ٹرافی جیتنے کا موقع بھی دیا تھا۔انہوں نے صرف5میچوں میں363رنز بنائے تھے۔ روہت شرما اور ویراٹ کوہلی پر پاکستانی بولروں اور فیلڈروں کو خاص نظر رکھنا ہوگی کیونکہ یہ دونوں وہ بلے باز ہیں جو کیچ ڈراپ ہوتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ شیکھر دھون کے ساتھ مل کر ٹیم کے ایک اچھا اسٹارٹ دینے میں زبردست مہارت رکھتے ہیں ۔ اگر محمد عامر اور حسن علی نے وہاب ریاض کے ساتھ مل کر نئی گیند کا خوبصورتی اور ذہانت کے ساتھ استعمال کیا تو یہ افتتاحی جوڑی شاید کم از کم پاکستان کے خلاف ٹیم انڈیا کو اچھا اسٹارٹ نہ دے پائے۔ یوں تو ٹیم انڈیا کو رویندر جڈیجہ، اشون، ہردیک پانڈیا اور یوراج سنگھ کی شکل میں 4 آل راو¿نڈر دستیاب ہیں لیکن یہ چاروں ابھی تک تو صرف ہندوستانی پچوں پر ہی آل راو¿نڈر ہونے کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔غیر ملکی پچوں پر خاص طور پر جڈیجہ توبلے با ز کا کردار کرپاتے ہیں اور نہ ہی بولر کا۔ یہی حال کم و بیش اشون کا ہے۔ یوراج سنگھ صرف بیٹسمین بن کر رہ جاتے ہیں اور ہردیک پانڈیا کو آزمایا نہیں جا سکا ہے۔ویسے دیکھا جائے تو پاکستان کے خلاف یوراج سنگھ کا بلا خوب چلتا ہے لیکن وہ ان کے عالم شباب کے ایام تھے۔ اب شاید ان کو محمد عامر، حسن علی اور وہاب ریاض کو کھیلنے میں کافی دقت محسوس ہوگی۔ اس سب کے باوجود یہی امید کی جاتی ہے کہ ٹیم انڈیا 2013ءکی کہانی ضرور د ہرائے گی لیکن پھر بھی اسے پاکستانی بولنگ اٹیک کے خلاف زبردست حکمت عملی وضع کرنا پڑے گی کیونکہ ہر خاص و عام دونوں ملکوں کے درمیان میچ کو ہی فائنل سمجھ کر دیکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: