Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی ڈانس پارٹیوں میں منشیات کا استعمال، نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے؟

پولیس کے مطابق پہلے مرحلے میں کم عمر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ڈانس پارٹیوں میں شامل کیا جاتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے علاقے سچل سے خاتون کی لاش ملنے کے بعد تحقیقات میں کئی نئے سوالات سامنے آئے ہیں۔
کراچی پولیس کے سپیشل انوسٹی گیشن یونٹ کی جانب سے 27 ستمبر کو کراچی میں سچل تھانے کی حدود سے ملنے والی لاش کی ابتدائی تحقیقات میڈیا کے سامنے لائی گئی تھیں۔
پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سچل کے علاقے سے ملنے والی لڑکی کی موت ممنوعہ ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہوئی۔
لڑکی کو چند ماہ قبل پاکستان کے شہر ملتان سے کراچی لایا گیا تھا۔ پولیس کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ اس سے قبل بھی کئی لڑکیوں کو مار کر نامعلوم مقام پر پھینکا جا چکا ہے۔
ایس ایس پی ایس آئی یو جنید شیخ نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس سچل کے علاقے سے ملنے والی لاش سمیت دیگر واقعات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اب تک کئی افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ کیس سے متعلق مزید تفصیلات بیان نہیں کی جا سکتیں۔
اس سے قبل پولیس کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں ڈانس پارٹیوں کا ایک منظم نیٹ ورک چل رہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں پولیس سمیت دیگر افراد ناصرف آن لائن پارٹیوں کے سسٹم چلا رہے ہیں، بلکہ ملک کے دیگر علاقوں سے لڑکیوں کو بھی لاکر ان فارم ہاوسز پر رکھا جاتا ہے۔
پولیس کے مطابق کم عمر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پہلے مرحلے میں ڈانس پارٹیوں میں شامل کیا جاتا ہے جہاں ان کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ممنوعہ ادویات اور نشے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ شہر میں کام کرنے والے ریسکیو ادارے چند ماہ میں 10 سے زائد ملنے والی لاپتہ لاشوں کی تدفین کر چکے ہیں۔
یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے؟
کراچی جیل سے حال ہی میں رہائی پانے والے ایک قیدی فہد نظیر (فرضی نام) نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چوری کے الزام میں ایک سال قبل جیل گئے تھے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی سگی خالہ کے گھر اپنے دوستوں کی مدد سے چوری کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی کے علاقے نیلم کالونی میں کچھ عرصہ قبل وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ میوزیکل پروگرام میں جانے کا سلسلہ اسی دوستی کے گروپ سے ملا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے مہینے میں ایک یا دو بار جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہفتے میں دو بار مختلف مقامات پارٹیوں میں جانا شروع کر دیا۔

پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں میں نشے کی عادت ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے (فوٹو: پکسابے)

فہد نظیر کے مطابق ’پہلے تو صرف ایک دو ٹافی نما گولیاں کھا لیا کرتے تھے تو خوب خوشی ملتی تھی اور بہت ہلہ گلہ کرتے تھے۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد یہ گولیاں اثر نہیں کرتی تھیں، تو مختلف اقسام کے نشے کرنے شروع کیے، پھر اچانک طبیعت خراب ہونے پر گھر والے ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹر نے کچھ ٹسیٹ کروائے اور وہاں گھر والوں کو معلوم ہوا کہ میں نشہ کرتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ابتدا میں گھر والوں نے گھر میں بند کرنا شروع کیا، اور پھر میرا جیب خرچ بالکل بند کر دیا، مجھے یونیورسٹی جانے سے بھی روک دیا گیا اور مجھ سے میرا موبائل فون بھی چھین لیا گیا۔ گھر والے جو کرسکتے تھے انہوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی، لیکن میں ان کی ایک بھی سننے کو تیار نہیں تھا۔ پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ گھر والوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔‘
’چار بہن بھائی میں سب سے چھوٹا ہونے پر جتنا پیار مجھے دیا گیا تھا وہ بالکل ختم ہونے لگا، سب مجھ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اور ایسے میں میرے پاس اپنی جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ کبھی دوستوں کی طرف سے نشہ مل جاتا تھا، لیکن کچھ دن بعد جب میں پیسے نہیں لا رہا تھا تو دوستوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور مجھے دیکھ نظر انداز کرنے لگے۔‘
’پھر ایک روز میری خالہ کے گھر چوری ہوئی اور اس کا الزام مجھ پر لگا دیا گیا، میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں چوری سے تین روز پہلے ان کے گھر گیا تھا۔‘
فہد کے مطابق کئی عرصہ جیل میں رہنے کے بعد اب انہوں نے نشے کی عادت چھوڑ دی ہے۔ وہ گھر والوں کے ساتھ ایک پھر گولیمار میں واقع اپنے پرانے گھر میں رہ رہے ہیں۔ اور اپنے پرانے دوستوں سمیت تمام تعلق کے دوستوں کے ملنا جلنا ختم کرچکے ہیں۔

پولیس کے مطابق نوجوانوں کو ان محفلوں کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات فراہم کی جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’کراچی شہر میں آن لائن پلٹ فارمز کا ڈانس پارٹیوں کے لیے استعمال‘
کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے دور دراز علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں فارم ہاوسز اور پرائیورٹ پوائنٹس موجود ہیں۔ ان مقامات پر مـختلف مواقع پر روزانہ اور ہفتے کی بنیادوں پر بھی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل دو نوجوانوں کو نشے کے ساتھ حراست میں لیا تو انہوں نے دوران تفتیش بتایا کہ سکول اور کالجز میں پڑھنے والے بچوں سمیت دیگر نوجوانوں کو ان محفلوں کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف واٹس ایپ گروپس بھی موجود ہیں جہاں ان پروگرامز کی تفصیلات دی جاتی ہے۔
’پہلے مرحلے میں ایک آزاد ماحول میں ہلہ گلہ کرتے نوجوان آہستہ آہستہ نشے کی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔ جذبات کو ابھارنے والی گولیاں اور دیگر نشے کے عادی افراد نئے نوجوانوں کو اس کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ نوجوانوں کو اس کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں سستے داموں یا مفت فراہم کی جانے والی یہ اشیا بعد میں پیسوں کے عوض دی جاتی ہیں اور جن نوجوانوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے انہیں نئے افراد کو لانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ نئے نوجوانوں کے لانے پر انہیں ممنوعہ ادویات اور نشے کا سامان دیا جاتا ہے۔‘
’نوجوانوں کو ایک منظم سازش کے تحت نشے کا عادی بنایا جارہا ہے‘
جامعہ کراچی شعبہ جُرمیات کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں میں نشے کی عادت ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، لیکن منظم سازش کے تحت نوجوانوں کو اس دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔

پولیس کے مطابق کراچی میں مختلف مقامات پر روزانہ اور ہفتے کی بنیادوں پر محفلیں سجائی جاتی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کراچی کے مضافاتی علاقوں سے نوجوانوں کی ملنے والی لاشوں کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس خود اس بات کا کئی بار اقرار کر چکی ہے کہ شہر سے دور قائم ان فارم ہاوسز میں غیر اخلاقی محفلیں منقعد کی جاتی ہیں۔ اور ان میں نوجوان کھلے عام نشے کا استعمال کرتے ہیں، کئی بار نشے کے زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی وجہ سے نوجوان اپنے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نشے کی جانب نوجوانوں کو راغب کرنے والے جال بُن کر نوجوانوں کو پھنساتے ہیں، کہیں تعلیم میں ذہن تیز کرنے کا جھانسہ دیا جاتا ہے تو کہیں خوش رہنے کے لیے ان ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اچھے بھلے گھر کے بچے اس لعنت کے عادی بن جاتے ہیں، اور اپنے لیے اور اپنے گھروالوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
نائمہ سعید کے مطابق معاشرے میں جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے جرائم پیشہ افراد نوجوانوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ شور شرابے اور ڈانس پارٹی سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ کئی نوجوانوں کو ناصرف منشیات کا عادی بنا دیتا ہے بلکہ جرائم کی طرف بھی دھکیل دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ارد گرد ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں نوجوان پہلے نشے کے عادی بنے اور پھر دیکھتے ہیں دیکھتے وہ نشے کے حصول کے لیے پیسے حاصل کرنے کے لیے مختلف جرم بھی کرنے لگے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد نشے کے عادی افراد ملک میں موجود ہیں۔

شیئر: