Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی اقدامات ’سب کو ردعمل‘ پر مجبور کر رہے ہیں: ایرانی صدر

ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ’امریکہ نے مزاحمت کے محور کو پیغامات بھیجے لیکن میدان جنگ میں اس کا واضح جواب ملا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر جاری بمباری ’سب کو ردعمل‘ پر مجبور کر سکتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اتوار کو ایکس (ٹوئٹر) پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’صیہونی حکومت کے جرائم اپنی پر حد عبور کر چکے ہیں اور یہ ردعمل کے لیے ہر کسی کو مجبور کریں گے۔ واشنگٹن نے ہمیں کچھ نہ کرنے کا کہا لیکن اس کی اسرائیل کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ نے مزاحمت کے محور کو پیغامات بھیجے لیکن میدان جنگ میں اس کا واضح جواب ملا۔‘
ایرانی حکام کی جانب سے ’مزاحمت کے محور‘ کی اصطلاح ایران اور اس کے اتحادیوں، جن میں لبان کی حزب اللہ، یمن کے حوثی اور عراق اور شام میں دوسری شیعہ طاقتوں شامل ہیں، کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ایرانی صدر کا اشارہ کس جانب تھا لیکن عراق اور شام میں امریکی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے ساتھ حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے درمیان بھی لبنان کی سرحد پر فائرنگ کے تبادلے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں مہینے سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے سرحد عبور کر کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی طیارے غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 14 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
غزہ کے حکام صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں آدھے بچے ہیں۔
غزہ 24 لاکھ افراد پر مشتمل ایک تنگ سی غربت زدہ پٹی ہے جہاں حماس کی حکمرانی ہے۔
ایران حماس کی مالی اور فوجی مدد کرتا ہے اور اس نے سات اکتوبر کے حملوں کو ایک ’کامیابی‘ قرار دیا۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ وہ اس حملے میں شامل نہیں تھے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس نے اس حملے کے دوران 230 افراد کو یرغمال بنایا ہے۔

شیئر: