Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نامحرم‘ مردوں سے ملنے والی این جی او کی خواتین کو نکاح کرنا ہوگا: کوہستان کے علما کا فیصلہ

مولانا کریم داد کے مطابق ’غیر نکاح شدہ این جی اوز کی خواتین گھومتے ہوئے پائی گئیں تو انہیں علاقے سے نکال دیا جائے گا‘ (فائل فوٹو: مولانا کریم داد فیس بُک)
خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر کوہستان کے علاقے پٹن میں مقامی سطح پر چند علما نے غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کی خواتین کو ’نامحرم‘ مردوں کے ساتھ کام سے روکنے کا فیصلہ جاری کیا ہے۔
سنیچر کو مقامی عالم دین مولانا احمد علی نے سوشل میڈیا پر مقامی تھانے کے باہر سات علما کے ساتھ تصویر شیئر کی۔
 انہوں نے تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’آج کوہستان کے علما نے متفقہ طور پر اس حوالے سے فیصلہ کیا ہے۔
’آج 12 بجے کے بعد جہاں کہیں این جی اوز کی خواتین گھومتے ہوئے پائی گئیں اور اگر اُن کا نکاح نہ ہوا ہو تو ان کے ساتھ نکاح کیا جائے اور اگر وہ نکاح والی ہوں تو انہیں علاقے سے نکال دیا جائے۔‘
 اسی طرح کی اطلاع مولانا کریم داد نے بھی دی۔ انہوں نے لکھا کہ ’اس حوالے سے ایس ایچ او کو اطلاع کر دی گئی ہے۔‘ 
کوہستان کو 1976 میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا اور اب کوہستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں لوئر کوہستان، اپر کوہستان اور کولیئ پالس کوہستان شامل ہیں۔
 کوہستان کی آبادی تقریباً سات سے آٹھ لاکھ نفوس کے قریب ہے جبکہ علاقے کا  ماحول مذہبی ہے۔ یہاں گذشتہ پچیس برسوں سے مختلف این جی اوز سرگرم ہیں۔
 علما کے حالیہ متنازع فیصلے پر مولانا کریم داد نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ اپنے علما کے ساتھ کوہستان میں کام کرنے والی تمام این جی اوز کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔‘
’بہت عرصہ پہلے ہمارے اکابرین نے اس حوالے سے این جی اوز کے سامنے چار نکات رکھے تھے۔‘
ہم نے این جی اوز کو بتایا تھا کہ مذہبی یا غیر مذہبی این جی اوز کو ہم کام کرنے دیں گے تاہم انہیں ہماری چار باتیں ماننا ہوں گی۔‘
انہوں نے چار نکات کے حوالے سے بتایا کہ ’این جی اوز سے کہا گیا کہ کوئی بھی ہمارے مذہب میں مداخلت کرے گا نہ ہی دیگر مذہب والے اپنے مذہب کا پرچار کریں گے۔‘
’کوہستان کی روایات کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس کے علاوہ این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین گھروں میں اجتماعی طور پر جانے کے بجائے اپنے سینٹرز میں رہیں گی۔‘

مولانا کریم داد کا کہنا ہے کہ ’جرگے کے حوالے سے مقامی ایس ایچ او کو اطلاع کر دی گئی ہے‘ (فائل فوٹو: خیبر پختونخوا پولیس)

مولانا کریم داد کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے مقامی سطح پر لوگوں کو بتایا ہے کہ وہ اپنی خواتین اِن سینٹرز پر لے جایا کریں۔‘
حالیہ متنازع فیصلے پر مولانا کریم داد نے مزید بتایا کہ ’کوہستان ایک پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں درے بھی ہیں۔ یہ سنسنان علاقہ ہے۔ این جی اوز کی خواتین غیر محرموں کے ساتھ گھروں میں جاتی ہیں۔‘
’تین خواتین ہوتی ہیں اور دو مرد۔یہ ہر جگہ جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ علاقے کی بدنامی نہ ہو اور یہ خواتین اس طرح نامحرم کے ساتھ کہیں نہ جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ این جی اوز کے کام کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ این جی اوز کے ساتھ کام کرنے والے مرد حضرات جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔ ہم بھی مدد کریں گے۔‘
’کوہستان پرامن علاقہ ہے اور یہاں ہر این جی او کام کر سکتی ہے۔ انہوں نے ایک این جی او کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ مقامی سطح پر  غیر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی این جی اوز کے ساتھ کوہستان میں کام کرتے ہیں۔‘
مولانا کریم داد کہتے ہیں کہ ’اس کی سرپرستی تمام علما کرتے ہیں۔ وہ ہماری خدمت کرتے ہیں اور ہم ان کا ساتھ دیتے ہیں لیکن اب یہاں ایک پراجیکٹ شروع ہوا ہے جو کئی دنوں سے کام کر رہا ہے۔‘
’اس پراجیکٹ کی خواتین مقامی گاڑی ’غواگئی‘ میں لڑکوں کے ساتھ گھومتی اور گھروں میں جاتی ہیں۔ یہ لڑکے تو ان کے لیے نامحرم ہیں۔‘ 

سوشل ورکرز ضیا خان کوہستانی کے مطابق ’یہ فیصلہ کوہستان کے تمام علما کا نہیں بلکہ چند علما کا ہے‘ (فائل فوٹو: فلِکر)

مولانا کریم داد کا مزید کہنا تھا کہ ’مقامی علما نے اِن خواتین کو گھروں میں اِس طرح جانے سے منع کیا۔ علما نے اِن کو بتایا کہ گھروں میں اس طرح نہ جائیں اور اپنے سینٹرز میں رہیں۔ خواتین بھی سینٹرز میں رہیں۔‘
’اگر صحت سے متعلق کام کرنا ہو تو ہمیں بتائیں ہم اعلان کریں گے اور لوگ خود آجائیں گے۔ اگر اس کے برعکس خواتین نامحرموں کے ساتھ گھومتی رہیں تو ہمارے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب این جی اوز کی خواتین نے علما کی بات کو نظرانداز کیا تو ہم نے حکومت کو اطلاع دی کہ ان کو منع کیا جائے۔ یہ کام کریں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن خواتین نامحرموں کے ساتھ کیوں گھومتی ہیں؟‘
’ہم کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب اور روایات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اس طرح کوئی بھی کسی کے علاقے کی روایات میں مداخلت کرے گا تو کسی سے برداشت نہیں ہوگا۔‘
لوئر کوہستان کے علاقے پٹن میں متحرک ایک این جی او کے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پٹن میں خواتین برقع پہن کر صحت اور غذا سے متعلق آگاہی پیدا کرتی ہیں۔‘
 ’میں خود پٹن کا رہائشی ہوں۔ یہ خواتین شرعی لحاظ سے پردہ کرتی ہیں اور گھروں میں جا کر صحت سے متعلق خواتین کو آگاہی فراہم کرتی ہیں۔‘
مولانا کریم داد بتاتے ہیں کہ ’اگر غیر نکاح شدہ خواتین پٹن کے علاقے میں کام کرتی ہیں تو ان کا نکاح ہونا ضروری ہے۔ علاقے میں اگر کوئی رضامند ہو تو خاتون کو اس سے نکاح کر لینا چاہیے۔‘ 

مولانا کریم داد کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ علاقے کی بدنامی نہ ہو اور این جی اوز کی خواتین نامحرم کے ساتھ کہیں نہ جائیں‘ (فائل فوٹو: مولانا کریم داد فیس بُک)

’جب نکاح ہوجائے تو اپنے محرم شوہر کے ساتھ ساری سرگرمیاں کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’جن خواتین کا پہلے سے نکاح ہوا ہے اور اپنے شوہر کو چھوڑ کر پٹن میں سرگرم ہیں ’تو ایسی خواتین کے شوہروں پر افسوس ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایسی خواتین کو یہاں سے چلے جانا چاہیے اور جن کا نکاح نہیں ہوا وہ اگر نکاح کرنا چاہیں تو علاقے میں کسی سے نکاح کر سکتی ہیں۔‘
مولانا کریم داد نے ایک سوال پر قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا کہ ’اگر کوئی لڑکی پٹن میں کسی لڑکے سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو شرعی طور پر کر سکتی ہے۔‘
’اگر ایسی خواتین یہاں کسی سے نکاح کرنا چاہتی ہیں تو پھر میاں بیوی راضی تو کیا کرے قاضی؟‘
ضیا خان کوہستانی نامی مقامی سوشل ورکر کے مطابق یہ فیصلہ چند علماء کا ہے جبکہ دیگر علماء اس سے متفق نہیں ہیں۔
انہوں نے علاقے میں این جی اوز کی سرگرمیوں اور ماضی میں ایسے واقعات سے متعلق صورت حال سے آگاہ کیا۔
’سابق ایم این اے مولانا عبدالحلیم کے دور میں کوہستان کے تینوں حصوں نے فیصلہ کیا تھا کہ این جی اوز کا کام یہاں بند کر دیا جائے لیکن پھر کافی عرصہ بعد یہاں این جی اوز متحرک ہوئیں۔‘
’اب یہ این جی اوز مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں جن میں صحت و غذا سے متعلق بھی کام ہو رہا ہے۔‘

’علاقے کے نوجوانوں اور سیاسی طبقے کی اکثریت جرگے کے اس فیصلے کی حمایت نہیں کر رہی‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ مولانا احمد علی، مولانا کریم داد، اور مولانا محمد امین کی ایما پر ہوا ہے لیکن یہ کسی بھی طور علما کا متفقہ فیصلہ نہیں ہے۔‘
ضیا خان کوہستانی کے مطابق ’یہ فیصلہ کوہستان کے تمام علما کا نہیں بلکہ چند علما نے یہ فیصلہ جاری کیا ہے۔ اپر اور کولئی پالس کوہستان سے ابھی اس حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔‘ 
’علاقے کے نوجوانوں اور سیاسی طبقے نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور اکثریت اس کی حمایت نہیں کر رہی۔‘
انہوں نے لوئر کوہستان میں علما کے آپسی اختلافات سے متعلق بتایا کہ ’لوئر کوہستان میں علما دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ چند علما نے مخالفت کی ہے لیکن کسی کا باقاعدہ کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
کوہستان میں اس وقت پانچ کے قریب این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ مقامی افراد سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں زیادہ تر کوہستان کے لوگ ہی کام کر رہے ہیں۔
ضیا خان کوہستانی بتاتے ہیں کہ ’یہاں خواتین کی تعلیمی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں گھروں سے بھی نکلنے نہیں دیا جاتا۔‘
علما نے جس این جی او کے پراجیکٹ کے خلاف یہ فیصلہ جاری کیا ہے اس کے فضل ہادی (فرضی نام) نامی عہدیدار نے بتایا کہ پٹن کے پانچ علما کا ایک ٹولہ ہے جس نے یہ فیصلہ سوشل میڈیا پر جاری کیا ہے۔‘

سوشل ورکرز ضیا کوہستانی کے مطابق ’علاقے میں خواتین کی تعلیمی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے‘ (فائل فوٹو: ریڈ)

’ہمارے علاقے کے اسی فیصد علما اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ ہماری روایت یہ ہے کہ باپردہ خواتین ہر جگہ کام کر سکتے ہیں۔‘
فضل ہادی نے کہا کہ ’یہ پراجیکٹ یہاں پہلی بار کام نہیں کر رہا بلکہ اس کو سال ہونے کو ہے۔‘
انہوں نے فیصلہ جاری کرنے والوں علما پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جن مولانا نے یہ فیصلہ جاری کیا ہے ان کے اپنے بچے اسی پراجیکٹ کے ایک حصے میں پہلے کام کر چکے ہیں۔‘
’تاہم ابھی پراجیکٹ کا جو حصہ شروع ہوا ہے اس کے لیے جب مقامی سطح پر آؤٹ ریچ ورکرز کی تعداد کم ہوئی اور پٹن میں ان کے بچے اس میں نہیں آئے تو یہ اس کے خلاف ہوگئے۔‘
فضل ہادی (فرضی نام) نے سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ ’ان سے یہ سوال ہونا چاہیے کہ گذشتہ آٹھ ماہ میں جب پچھلے آؤٹ ریچ میں ان کے بچے کام کر رہے تھے تب یہ کہاں تھے؟’
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’تب یہ ان ہی خواتین کے ساتھ ہر گھر جاتے تھے۔ اُس وقت یہ جائز تھا اب ناجائز کیوں ہے؟‘
تاہم مولانا کریم داد ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری سطح پر ایس ایچ او، ڈی پی او اور ڈی سی کو اطلاع دے دی ہے۔‘
’ڈی سی نے کہا ہے کہ ہم آپ کے تحفظات دور کریں گے، تاہم کچھ افسران اشتعال پھیلانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے مفادات ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہمارے کسی قسم کے مفادات نہیں ہیں۔ ہم اپنی روایات اور مذہب کا دفاع چاہتے ہیں۔‘

شیئر: