Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا معاملہ اقوام متحدہ میں بھجوائیں؟‘ بلوچ طلبا گمشدگی کیس میں نگراں وزیراعظم طلب

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگراں وزرائے دفاع اور داخلہ کو بھی اگلی پیشی پر طلب کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچ طلبا کی گمشدگی اور بازیابی سے متعلق معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا ہے۔
 بلوچ جبری گمشدگی کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کیس کی سماعت بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی جس میں عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں عدالت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کیس کے حوالے سے بتایا گیا۔
کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آج اس کیس کی اکیسویں تاریخ ہے اور اس سے قبل یہ کیس جسٹس اطہر من اللہ کے پاس تھا جو چیف جسٹس تھے۔
عدالت کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ عدالت کے حکم پر کمیشن قائم ہوا اور اس میں سوالات پیش کیے گئے، اس کے بعد معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا گیا اور یہ ایک نہیں 51 بلوچ طلبا کا معاملہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ملک کے وزیراعظم کو معاملہ بھیجا، انہیں خود احساس ہونا چاہیے تھا، ہم سمجھے وہ آکر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں۔‘
جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ ’اگر ان کے خلاف کوئی کریمنل کیس تھا تو رجسٹر کرتے۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جو بھی معاملہ ہو اسے متعلقہ وزارت دیکھتی ہے یا سب کمیٹی کے سامنے بھیجا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کمیٹی پھر معاملہ وزیراعظم اور کابینہ کے ساتھ شئیر کرتی ہے۔
اس موقع پر عدالت نے کہا کہ جو کمیشن تھا اس میں کافی ہائی پروفائل لوگ شامل تھے، سب لکھا گیا لیکن اسکے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
’کمیشن کا اصل مقصد لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا ہے۔

آج بلوچ طلبا گمشدگی کیس پر عملدرآمد کیس کی21ویں سماعت تھی (فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ)

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ عدالت نے کتنے فیصلے دیے، کمیشن نے کچھ کام نہیں کیا جو ایک المیہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کمیشن صرف عدالتوں کے فیصلوں کو بائی پاس کرنے کے لیے بنا ہے۔ عدالت نے تو اپنا کام کرنا ہے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔‘
’آج اکیسویں سماعت پر بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھے آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہوں گی اور لوگ واپس آجائیں گے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری  ہے اور تھی کہ اس کی جانب سے کہا جاتا کہ اب وہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہیں۔‘
عدالت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم وزرا کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پچھلے کئی سالوں سے یہی دیکھ  رہے ہیں۔‘
’یہ کام ایگزیکٹیو کا تھا لیکن کر عدالت رہی ہے، کیا ہم یہ معاملہ اقوام متحدہ کو بھیجیں اور اپنے ملک کی بے عزتی کروائیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ’اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہو گی اس ملک کی، جب لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔‘
عدالت میں پیش ہونے والے وزارت دفاع کے نمائندے کو کہا گیا کہ نگراں وزیر دفاع اور نگراں وزیر داخلہ کو کہیں کہ وہ اگلی سماعت پر پیش ہوں۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ وزرا کو طلب نہ کیا جائے۔
تاہم جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ وہ سات روز کا وقت دیتے ہیں۔

شیئر: