Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایک ماہ کی مہلت‘، حکومت ’غریبوں کی سواری‘ چنگ چی کیوں بند کرنا چاہتی ہے؟

حکومت نے صوبہ پنجاب میں چنگ چی رکشے کی رجسٹریشن کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے اور اس کے بعد غیر رجسٹرڈ رکشوں کو مستقل طور پر بند کر دیا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے یہ اقدام پہلی بار نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار اس سواری کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تاہم عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا، اور اب بھی اس کے ڈرائیورز کو یقین ہے کہ اس بار بھی حکومت کو ناکامی ہو گی۔
لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن میں موجود ایک رکشہ ڈرائیور سلمان نے حکومتی الٹی میٹم کے حوالے سے کہا کہ ’میں چار سال سے رکشہ چلا رہا ہوں، ہم کافی عرصے سے پابندی کا سن رہے ہیں لیکن نہ لگی اور نہ ہی لگنی ہے کیونکہ اس کو غریب چلاتے ہیں اور اگر پابندی لگائی گئی تو یہ غلط فیصلہ ہو گا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مجھے ایک دو بار روکا گیا لیکن پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔‘
لاہور کے ہی ایک اور رکشہ ڈرائیور شاہد کا کہنا تھا کہ ’میں دو سال سے رکشہ چلا رہا ہوں اور میرے بچوں کا رزق اسی پر چل رہا ہے۔ اگر حکومت اس کو بند کرتی ہے تو میں اکیلا نہیں بہت سے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، اس کو غریب چلاتے ہیں اور غریب ہی اس پر سفر کرتے ہیں کیونکہ دس پندرہ روپے میں اس پر سفر ہو جاتا ہے۔‘

حکومت نے موٹر سائیکل رکشے کی رجسٹریشن کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ حکومت اس کو رجسٹرڈ کرے تا کہ روزگار ختم نہ ہو۔‘

موٹر سائیکل رکشہ کب آیا اور متنازع کیوں ہے؟

ایک موٹر سائیکل کے پیچھے لوہے کی باڈی اور دو سیٹیں لگا کر بنائے جانے والا یہ رکشہ تقریباً دو عشرے قبل آیا اور بہت جلد ملک کے طول و عرض میں دکھائی دینے لگا۔

چینی کمپنی چنگ چی کی طرز پر پاکستان میں رکشے بنائے جانے لگے۔ فوٹو: آٹو ڈیلز

چنگ چی رکشوں کے باڈی میکر محمد صابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سب سے پہلے چین کی موٹرسائیکل بنانے والے کمپنی، جس کا نام چنگ چی ہے، نے بنائے اور یہ جب پاکستان آئے تو اتنے سادہ تھے کہ یہاں کے ہنرمندوں نے اسی ڈیزائن کی طرح باڈیاں بنانا شروع کیں جو کسی بھی موٹر سائیکل کے پیچھے لگائی جا سکتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اصل چنگ چی رکشہ تو اب شاذ ہی نظر آتا ہے یہ سب مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں اور اب ہر موٹر سائیکل رکشے کو چنگ چی ہی کہا جاتا ہے۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف لاہور شہر میں 80 ہزار سے زائد موٹر سائیکل رکشے چل رہے ہیں جن میں سے صرف 20 فیصد رجسٹرڈ ہیں۔

غیررجسٹرڈ رکشوں کو ایک ماہ بعد مسقتل طور پر بند کر دیا جائے گا۔ فوٹو: اردو نیوز

حکومتی معمہ اور رکشہ یونین کا موقف

رکشہ یونین کے صدر مجید غوری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ تنازع صرف اس وجہ سے ہے کہ باڈی کوئی بنا رہا ہے موٹرسائیکل کسی کی ہے اور قوانین کے مطابق ایک گاڑی مختلف حصوں کو جوڑ کر نہیں بنائی جا سکتی۔ باڈی پر موٹر سائیکل کا نمبر نہیں لگ سکتا اس لیے غیررجسٹرڈ رکشوں کے پیچھے آپ کو نمبر نظر نہیں آئے گا۔‘
ان کے مطابق ’ہمارا خیال ہے کہ حکومت اب اگر اس کو ریگولرائز کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے لیکن جو لوگ دو اڑھائی لاکھ روپے لگا کر یہ کام کر رہے ہیں ان کو یا تو پیسے واپس دلائے جائیں یا ان کی رجسٹریشن کے لیے قوانین میں تبدیلی کی جائے۔‘

چنگ چی رکشوں کے ڈرائیورز نے پابندی کی مخالفت کی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

حکومت کے لیے ایک معمہ یہ بھی ہے کہ موٹرسائیکل رکشہ نہ تو موٹرسائیکل کی تعریف میں آتا ہے اور نہ ہی گاڑی کے زمرے میں۔ پاکستان میں چنگ چی کی اصل کمپنی کے بعد چھ ایسی مقامی کمپنیاں موجود ہیں جو موٹرسائیکل رکشے بنا رہی ہیں یعنی باڈی اور موٹرسائیکل ایک ہی کمپنی اسمبل کرتی ہے۔
قوانین کے مطابق صرف انہی کمپنیوں کے رکشے قانونی ہیں۔ لاہور ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ ٹھیک ایک مہینے کے بعد موٹرسائیکل رکشوں کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاؤن شروع کر دیا جائے گا۔

شیئر: