Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جے یو آئی اور ن لیگ میں اتحاد، اور کون کون شامل؟

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر مفاہمت اور ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ آگے بڑھیں گے (فوٹو: پی ایم ایل فیس بک)
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے منگل کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے وہ ملاقات کی جس کا اس وقت سے انتظار ہو رہا تھا جب نواز شریف پاکستان واپس آئے۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ مفاہمت اور ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
اس ملاقات سے پہلے اور بعد میں پاکستان کے سیاسی مباحثوں میں ایک امکان کا زور و شور سے ذکر ہو رہا ہے کہ مولانا اور نواز لیگ میں اتحاد کے بعد ملک کی دوسری جماعتیں بھی اس اتحاد کی طرف راغب ہوں گی اور یا تو عمران خان کے خلاف بننے والا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اتحاد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور یا پھر اسی طرز پر نیا اتحاد بنے گا۔
یہ تذکرہ بھی ہو رہا ہے کہ انتخابات کے بعد تمام جماعتیں حکومت میں ہوں گی اور اپوزیشن واحد پاکستان تحریک انصاف کی ہو گی یا اکا دکا کسی اور چھوٹے گروہ کی۔
ان مجوزہ اتحادوں کے بارے میں جب پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ سے ایک انٹرویو میں سوال ہوا تو بظاہر تو انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت میں اس طرح کی کسی بات پر مشاورت نہیں ہوئی اور وہ ہر قیمت پر سادہ اکثریت لینے کے خواہاں ہیں، لیکن اگلی ہی سانس میں انہوں نے نواز شریف کا بیان دہرایا کہ ’چالیس سال کا نچوڑ ہے کہ سب مل کر کام کریں۔‘
مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی عبدالغفور حیدری نے ان کی نواز شریف سے ملاقات کے فورا بعد اردو نیوز سے مختصر گفتگو میں خوشگوار انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کے درمیان مستقبل میں اکٹھے چلنے کے بارے میں ’اچھی اچھی باتیں‘ ہوئی ہیں۔

نون لیگ کی مایوسی ختم ہوئی عوام کی نہیں

سینیئر سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی اس بات سے متفق ہیں کہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں پاکستان تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت تنہا رہ جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سال 2024 کے انتخابات کی منفرد بات یہ ہے کہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کو بڑی جماعتوں کی ضرورت نہیں بلکہ بڑی جماعتوں کو ان کی ضرورت پڑ گئی ہے۔‘
سلمان غنی کا خیال ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ان کی جماعت کے اندر تو مایوسی ختم ہو گئی ہے، لیکن پاکستان کے عوام میں یہ مایوسی برقرار ہے اور ان حالات میں اپنے حق میں نتائج حاصل کرنے کے لیے نواز شریف دوسری جماعتوں سے اتحاد کر رہے ہیں اور کریں گے۔

عمران مخالفت: نواز شریف اور فضل الرحمان کی قدر مشترک

ان کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف اور مولانا کے درمیان جو قدر مشترک ہے وہ عمران مخالفت ہے اور مولانا اس میں نواز شریف سے بھی بہت آگے چلے گئے ہیں۔ جب ان کا اتحاد بنے گا تو دوسری جماعتیں بھی اتحاد کی طرف بڑھیں گی اور بلوچستان اور سندھ میں جہاں مولانا کا ووٹ بنک موجود ہے وہاں پر اس سے مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں کو مدد ملے گی۔‘

سینیئر صحافی ارشاد احمد عارف کے خیال میں نواز شریف کو اب بھی خدشہ ہے کہ وہ انتخابات ہار سکتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم اور بلوچستان کے الیکٹیبلز کے بعد جی ڈی اے اور فنکشنل لیگ بھی مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد بنائیں گی اور اس وجہ سے پیپلز پارٹی پریشان ہے۔‘
’بلاول بھٹو کے بیانات اسی طرف اشارہ ہیں کہ ان کے ساتھ بھی معاملات طے کیے جائیں۔‘

نواز شریف کو دھوکے کا خدشہ

سینیئر صحافی ارشاد احمد عارف کے خیال میں نواز شریف کو اب بھی خدشہ ہے کہ وہ انتخابات ہار سکتے ہیں اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔
’ماضی میں نواز شریف نے کبھی انتخابات سے پہلے اتحاد نہیں کیا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کر رہے ہیں کیونکہ ان کو خدشہ ہے کہ ایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ وہ اگلی اسمبلی میں اکثریتی جماعت نہ بن پائیں۔‘
ارشاد احمد عارف کے مطابق ’ان کو یہ خدشہ ہے کہ جو لوگ ان کو لائے ہیں اور ان کے لیے سارا کچھ کر رہے ہیں وہ کہیں انتخابات کے وقت ان کو دھوکہ نہ دے دیں اور ان کی کامیابی خطرے میں نہ پڑ جائے۔‘
’اس لیے وہ دوسرے صوبوں کے چھوٹے بڑے سیاستدانوں سے بات کر رہے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ ان کی جڑیں پورے ملک میں ہیں اور وہ پورے پاکستان میں مقبول ہیں۔‘

نواز شریف کی دو تہائی اکثریت روکنے کے لیے پیپلزپارٹی کو پی ٹی آئی کی ضرورت

ارشاد احمد عارف کے مطابق وہ دوسری جماعتوں سے اتحاد کریں گے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کریں گے۔
’ان کی ایم کیو ایم سے مذاکرات کی آخری نشست بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ایجنڈے پر تھی اور اس میں جائزہ لیا گیا کہ دونوں جماعتیں کہاں کہاں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کر سکتی ہیں۔ ان کا ایم کیو ایم کے علاوہ جے یو آئی،  باپ، جی ڈی اے، اے این پی اور استحکام پاکستان پارٹی سے انتخابی اتحاد ہو سکتا ہے۔‘
ارشاد احمد عارف سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس وقت پی ٹی آئی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس کو انتخابات لڑنے کا موقع نہ دیا گیا تو نواز شریف دو تہائی اکثریت لے سکتے ہیں۔
’لیکن انتخابات کے بعد وہ بھی (حکومت میں حصہ لینے کی خاطر) نواز لیگ کی حلیف بن سکتی ہے۔‘

گذشتہ برس عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت تشکیل دی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’پی ٹی آئی کا وکٹم کارڈ چل رہا ہے‘
لیکن تجزیہ کار نادیہ نقی کے خیال میں پی ٹی آئی کو انتخابات کی اجازت دینا دوسری جماعتوں کو اکٹھا کرے گا۔
’تمام جماعتوں کو اس وقت سمجھ آ گئی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ہے، ان کا وکٹم کارڈ چل رہا ہے اور اگر ان کو روکنا پڑا تو سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی کو آزادانہ انتخابات کا موقع نہیں ملتا تو پھر دوسری جماعتوں کے چھوٹے چھوٹے اتحاد بنیں گے اور پی پی پی نون لیگ کو چیلنج کرے گی۔‘
تاہم نادیہ نقی یہ بھی سمجھتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنا حصہ مانگ رہی ہے اور بہت چھوٹی سی قیمت لے کر آنے والی حکومت کی اتحادی بن سکتی ہے۔
ان کے مطابق ’پیپلز پارٹی کی یہ عادت ہے کہ مانگتے موت ہیں لیکن بخار پر راضی ہو جاتے ہیں۔‘

شیئر: