Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارجنٹ فِیس پر بھی ایک مہینہ انتظار، پاسپورٹ کا حصول تاحال مشکل کیوں؟

پاسپورٹ حکام کے مطابق ای پاسپورٹ کے حصول کے لیے بہت کم شہری درخواستیں دے رہے ہیں۔ فائل فوٹو: فری پِکس
’تین گھنٹوں سے قطار میں کھڑا ہوں اور اب بھی کچھ وقت لگے گا جب میں ٹوکن حاصل کرکے اندر جا سکوں گا اور پھر بھی پاسپورٹ بنے گا یا نہیں اور اس پر کیا اعتراض لگے گا، مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ مایوس ہو کر واپس لوٹ رہے ہیں۔ ای پاسپورٹ سے پہلے پاسپورٹ بنوانے کا نظام تو بہتر کر لیں تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔‘
یہ الفاظ احسان اللہ کے ہیں جو اسلام آباد کے جی ٹین سیکٹر میں واقع پاسپورٹ دفتر کے باہر اپنا پاسپورٹ جمع کروانے کے لیے قطار میں کھڑے ہوئے تھے اور تھکن ان کے چہرے سے عیاں تھی۔
پاسپورٹ دفتر کے باہر مرد اور خواتین الگ الگ قطاروں میں کھڑے ہیں اور پاسپورٹ دفتر میں ضرورت سے زیادہ رش دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو نوجوانوں میں بیرون ملک جانے کے رجحان میں اضافہ ہونا ہے تو دوسری وجہ پاسپورٹ کی ترسیل میں غیرمعمولی تاخیر ہے جس وجہ سے اگر کسی کو دو تین ماہ بعد بھی پاسپورٹ کی ضرورت ہے تو وہ ابھی سے جمع کروانا چاہتا ہے تاکہ آخری وقت پر پاسپورٹ کے حصول کے لیے پریشان نہ ہونا پڑے۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے پاسپورٹ دفتر کے باہر لگی قطاروں میں موجود افراد سے ان کو درپیش مشکلات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
احسان اللہ کے مطابق وہ دوسری مرتبہ اپنا پاسپورٹ بنوا رہے ہیں۔ ان کا پرانا پاسپورٹ زائدالمیعاد ہو چکا ہے اور وہ اب بسلسلہ روزگار بیرون ملک جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ان کو اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ ایک تو خوامخواہ کوئی اعتراض نہ لگا دیا جائے اور اگر اعتراض نہیں بھی لگتا تو پہلے تین چار گھنٹے قطار میں لگنے کے بعد جب وہ اندر جائیں گے اور پاسپورٹ پروسیس ہو گا تو اس کے بعد فارم کی تصدیق اور اسے واپس جمع کروانے میں دو دن لگ جائیں گے جبکہ فیس جمع کروانے میں ایک دن پہلے ہی لگ چکا ہے۔
احسان اللہ کا کہنا تھا کہ ’جو کام ایک دو گھنٹے میں ہونا چاہیے اس پر تین دن لگیں گے اور اس کے بعد ارجنٹ فیس جمع کرا کے بھی کم از کم ایک مہینہ انتظار کرنا پڑے گا۔‘
دوسری قطار میں ایک خاتون بشریٰ حسن ہاتھ میں فائل تھامے کھڑی تھیں۔ ان سے جب پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ پاسپورٹ بنوانے کے لیے یہ ان کا دوسرا چکر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کچھ دن پہلے جب پاسپورٹ بنوانے آئی اور دو گھنٹے قطار میں لگنے کے بعد جب باری آئی تو عملے نے بتایا کہ میرے شناختی کارڈ پر میرے آبائی علاقے کا پتہ درج ہے۔ اس لیے میں اسلام آباد سے پاسپورٹ نہیں بنوا سکتی۔ اگر آبائی علاقے میں نہیں جا سکتی تو پھر دو ہی آپشنز ہیں کہ یا تو نیا شناختی کارڈ بنوائیں اور اس پر اسلام آباد کا عارضی پتہ لکھوائیں یا پھر جہاں بھی آپ ملازمت کرتی ہیں وہاں سے پاسپورٹ امیگریشن کے ریجنل ڈائریکٹر کے نام درخواست لکھوا کر لائیں تاکہ آپ خصوصی اجازت کے تحت پاسپورٹ بنوا سکیں۔‘

ضلع گجرات میں شہری پاسپورٹ بنوانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان قطاروں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کروانے کے بعد اس کی ڈیلیوری نہ ہونے کے باعث پریشانی میں پتہ کرنے آئے ہیں کہ ان کا پاسپورٹ تاخیر کا شکار کیوں ہے لیکن ان کو صبر کی تلقین کرکے واپس بھیجا جا رہا ہے۔
یہ حالات ایک عام پاسپورٹ دفتر کے ہیں لیکن اضافی فیس دے کر پاسپورٹ بنوانے کے لیے اسلام آباد میں ایگزیکٹیو پاسپورٹ دفتر بھی بنایا گیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں اب ایگزیکٹیو سینٹر پر بھی غیرمعمولی رَش دکھائی دے رہا ہے۔
پاسپورٹ بنوانے کے ایک اور خواہش مند محمد علی نے بتایا کہ ’ایگزیکٹیو سینٹر جانے پر معلوم ہوا کہ اب ایسا نہیں ہے کہ آپ وہاں جائیں اور وی آئی پی طریقے سے پاسپورٹ بنوائیں بلکہ رش بڑھ جانے کے باعث اب وہاں صبح آٹھ سے 10 بجے تک ٹوکن دیے جاتے ہیں اور اس کے بعد سارا دن ان ٹوکنوں پر پاسپورٹ پراسس کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اب اضافی فیس دے کر بھی آپ کو کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
پاسپورٹ حکام کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں لیمینیشن پیپر نہ ہونے اور پرنٹنگ کے مسائل کی وجہ سے پاسپورٹ بیک لاگ میں اضافہ ہوا۔ اس وجہ سے پاسپورٹ بنوانے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ تاہم اب  مسئلے پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے درپیش تکنیکی رکاوٹوں کو دور کر کے پاسپورٹ بنانے کی 100 فیصد صلاحیت بحال کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بیک لاگ کو ختم کرنے کے لیے اضافی پرنٹنگ مشینری بھی مختص کی گئی ہے۔
حکام کے مطابق جلد ہی بیک لاگ مکمل طور پر کلیئر ہو جائے گا اور صورت حال معمول پر آ جائے گی۔
دوسری جانب کئی برسوں سے التوا کا شکار ای پاسپورٹ کا اجرا بھی شروع ہو چکا ہے اور جلد ہی اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت دیگر انٹرنیشنل ایئرپورٹس پر ای گیٹ یا سمارٹ گیٹ لگا دیے جائیں گے۔ ای پاسپورٹس رکھنے والے مسافر ان سمارٹ گیٹس سے گزرتے ہوئے امیگریشن پراسس مکمل کر سکیں گے۔
پانچ سال کے لیے 36 صفحات پر مشتمل ای پاسپورٹ کی نارمل فیس 9 ہزار روپے اور ارجنٹ بنوانے کے لیے فیس 15 ہزار روپے ہو گی۔
10 سال کی مدت کے ای پاسپورٹ کی نارمل فیس ساڑھے 13 ہزار روپے جبکہ ارجنٹ کی ساڑھے 22 ہزار روپے ہو گی۔

حکام کے مطابق لیمینیشن پیپر نہ ہونے اور پرنٹنگ کے مسائل کی وجہ سے پاسپورٹ بیک لاگ میں اضافہ ہوا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پانچ سال کے لیے 72 صفحات کے ای پاسپورٹ کی نارمل فیس ساڑھے 15 ہزار روپے اور ارجنٹ کی فیس 27 ہزار روپے ہو گی۔ 10 سال کے لیے 72 صفحات کے ای پاسپورٹ کی فیس 24 ہزار 750 اور ارجنٹ فیس ساڑھے 40 ہزار روپے ہو گی۔
جدید ٹیکنالوجی سے بنائے گئے ای پاسپورٹ میں 20 سے زیادہ سکیورٹی فیچرز ہیں۔ ای پاسپورٹ میں پاسپورٹ ہولڈر کا سارا ریکارڈ اور سفری تفصیل موجود ہو گی۔ جلد ہی یورپ اور امریکا سمیت دیگر ممالک میں قائم پاکستانی سفارتخانوں میں بھی ای پاسپورٹس بنانے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
پاسپورٹ حکام کے مطابق ای پاسپورٹ گیٹس لگنے کے بعد ہی مکمل طور پر فعال ہوں گے تاہم ای پاسپورٹ میں عام پاسپورٹ سے ہٹ کر ایک چپ نصب ہو گی، اس لیے جب تک سمارٹ گیٹس نہیں لگائے جاتے، یہ نارمل پاسپورٹ کی طرح ہی استعمال کیا جا سکے گا۔
ایک سوال کے جواب میں پاسپورٹ حکام نے بتایا کہ ’ای پاسپورٹ کے لیے فی الحال بڑی تعداد میں درخواستیں موصول نہیں ہوئیں اور زیادہ تر لوگ اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔‘

شیئر: