Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکیورٹی اہلکاروں پر ’فائرنگ‘ کا الزام، منظور پشتین چمن سے گرفتار

منظور پشتین 40 دنوں سے جاری دھرنے میں شرکت کے لیے چند روز قبل چمن پہنچے تھے۔ (فوٹو: فیس بک)
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور احمد پشتین کو افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چمن سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
منظور پشتین پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کے خلاف 40 دنوں سے جاری دھرنے میں شرکت کے لیے چند روز قبل چمن پہنچے تھے۔
انہوں نے دھرنے سے خطاب کے بعد تربت میں تین افراد کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف کئی دنوں سے جاری دھرنے میں شرکت کے لیے چمن سے مکران جانے کا اعلان کیا تھا۔
چمن پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پیر کو چمن سے کوئٹہ کے راستے تربت جانے کی کوشش کے دوران منظور پشتین کے قافلے کو چمن میں روکا گیا تاہم تین مقامات پر وہ رکاوٹیں توڑنے میں کامیاب ہوئے۔‘
’اس کے بعد مال روڈ پر پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے ان کی گاڑی کے دو ٹائر فائرنگ کر کے برسٹ کر دیے۔‘
چمن پولیس کے افسر کے مطابق ’پی ٹی ایم کے کارکنان منظور پشتین کو واپس دھرنے کے مقام پر لے گئے تاہم بعدازاں انہوں نے خود ڈی پی او آفس آ کر رضا کارانہ گرفتاری دے دی۔‘
تاہم ڈپٹی کمشنر چمن راجہ اطہر عباس کا الزام ہے کہ چمن میں معمول کی چیکنگ کے دوران پولیس، لیویز اور ایف سی اہلکاروں نے منظور پشتین کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تو ان کے ساتھ موجود مسلح افراد نے گاڑی روکنے کی بجائے اہلکاروں پر چڑھائی کی اور فائرنگ کی۔

چمن پولیس کے ایک افسر کے مطابق ’پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے منظور پشتین کی گاڑی کے دو ٹائر فائرنگ کر کے برسٹ کر دیے۔‘ (فوٹو: فیس بک)

ایک بیان میں ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’اہلکاروں نے جوابی کارروائی کر کے منظور پشتین کی گاڑی کے ٹائر پر فائرنگ کی لیکن اس کے باوجود وہ مسلح افراد کے ہمراہ گاڑیاں بھگا کر فرار ہوئے۔ بعدازاں سرچ آپریشن کے دوران ایک گودام سے منظور پشتین کو گرفتار کیا گیا۔‘
ڈپٹی کمشنر کے مطابق منظور پشتین کے خلاف فائرنگ کے واقعہ کا مقدمہ درج کر کے انہیں کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ کے ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ ’منظور پشتین کو تربت جانے سے روکنے کے لیے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی جس میں سے آٹھ گولیاں گاڑی کو لگیں اور ایک خاتون بھی زخمی ہوئی۔‘
پی ٹی ایم چمن کے عہدے دار اویس ابدال کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں اور ضلعی انتظامیہ نے چمن میں جاری دھرنے کوسبوتاژ کرنے کی خاطر امن وامان کو خراب کرنے کی کوشش کی تاہم چمن کے پُرامن مظاہرین نے یہ سازش ناکام بنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ منظور پشتین نے واپس چمن آ کر خود گرفتاری پیش کی۔
ادھر بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کوئٹہ میں اپنی معمول کی پریس بریفنگ کے دوران چمن واقعہ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بتایا کہ فائرنگ کی ہمیں کوئی معلومات نہیں۔ منظور پشتین کے پاس اپنے محافظ ہیں ان کی وجہ سے فائرنگ ہو سکتی ہے۔

اویس ابدال کا کہنا ہے کہ منظور پشتین نے واپس چمن آ کر خود گرفتاری پیش کی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ منظور پشتین نے تربت جانے کا اعلان کیا تھا لیکن وزات داخلہ کی پابندی کی وجہ سے وہ تربت نہیں جا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے چمن کا دھرنا پاکستان مخالف پلیٹ فارم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پی ٹی ایم ایک پاکستان مخالف تنظیم ہے۔ منظور پشتون کے بلوچستان میں داخلے پر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی تھی اور تین دفعہ نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس کے باوجود وہ چمن آئے اور حکومت کی اجازت کے بغیر جلسہ کیا۔‘
نگراں صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ منظور پشتین کو چمن سے جانا چاہیے تھا لیکن وہ قلعہ عبداللہ کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں اپنے محافظوں کے ساتھ چھپے ہوئے تھے۔ آج پھر انہوں نے چمن کے دھرنے کو ریاست مخالف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا۔

شیئر: