Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”پُراصراریت “

حاضرینِ جلسہ نے کہا کہ اگر آپ نے وعدے پورے کر دیئے تو ہم آئندہ پارلیمنٹ کےلئے بھی آپ کو ووٹ دینگے،یوں میں کامیاب ہو گیا
شہزاد اعظم
گزشتہ چند دنوں سے ہمارے وجود پر ایک ”پُر اصرار“ کیفیت طاری ہے جو مُصر ہے کہ ہم ”تفاوت“ یعنی ”فرق“ یعنی ”ڈِفرنس“ یعنی ”اختلاف“ پرخوض و غور کریں۔اس کیفیت سے مغلوب ہونے کے باعث ہم ہر روز 22گھنٹے اور23منٹ نباتات وحیوانات وجمادات کے مابین پائے جانے والے فرق کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کوئی فرق ایسا ہوتا ہے جسے جان کر، بوجھ کر، بازیافت کرکے دریافت کر کے ہم مسکراتے ہیں، کبھی کسی فرق پر ہم ہنستے ہیں،کسی فرق پرٹھٹھے مارتے ہیں اور کسی پرقہقہہ لگاتے ہیں۔ اسی طرح یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی فرق پرہم صرف آہ بھرنے پر اکتفا کرتے ہیں، کسی کے بارے میں جان کر ہماری آنکھوں میں نمی آ جاتی ہے اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے، کوئی فرق ایسا ہوتا ہے جس پر ہم6،6آنسو رونے لگتے ہیں، کسی فرق پر ہم منہ پھاڑکرٹسوے بہاتے ہیں اورکسی فرق پر ہم کوکیں مار مار کر دہائیاں دینے لگتے ہیں۔ہماری آج کی تحریراسی ”پُراصراریت “ سے معمور ہے۔
لیاقت ، بچپن میں” لال اسکول“ میں ہمارے ساتھ تھا۔ ہم دونوں ایک ہی ٹاٹ پر بیٹھتے تھے چنانچہ ہمارے استاد جی فرمایا کرتے تھے کہ آپ دونوں ایک دوسرے کوہم جماعت نہیں بلکہ ”ہم ٹاٹ“ کہا کریں۔محلے والے لیاقت کو بطور فیشن ”لیاکا“کہہ کر پکارتے تھے۔ ”لیاکا“پڑھائی میں کسی سے پیچھے نہیںتھا۔ وہ انگریزی نہ صرف بڑے شوق سے سیکھتا اور لکھتا تھا بلکہ” ٹیڑھا منہ“ کر کے بولتابھی تھا۔لال اسکول سے 10جماعتیں پاس کرنے کے بعد ”لیاکا“ کی ” حُبِ فِرنگ“ اسے ”فِرنگستان“ لے گئی اور ہم دسویں کی مارکس شیٹ ہاتھ میں لے کر کالج میں داخلے کےلئے سفارش تلاش کرنے میں جُت گئے۔
وقت گزرتا گیا اور 10برس مزید گزر گئے۔ایک روز ہم اپنے شہر میں نوکری کی تلاش کی پاداش میں مٹر گشتی کے دوران ایک مصروف و معروف شاہراہ کے فٹ پاتھ پر خراماں خراماں چلے جا رہے تھے کہ ایک سیاہ رنگ کی درآمدشدہ حَسین و جمیل ، عام سے کہیں زیادہ طویل گاڑی ہمارے قریب آ کر رُکی۔ ہم ٹھٹھک کر رہ گئے۔ اسی اثناءمیں” کافیائی رنگت “ کے بالوں والا ،گورا چٹاوجیہ جوان، سیاہ کوٹ، سیاہ پینٹ اور سیاہ قمیص پر سفید ٹائی گلے میں باندھے اور سفیدوجیہ جوان گاڑی سے برآمد ہوا ۔ اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، ہمارے گلے لگ گیا اور کہنے لگا ”میرے ”ہم ٹاٹ“ کیا حال ہیں، مجھے پہچانا نہیں، میں ”لیاکا“ ہوں۔ یہ سن کر ہمارے” ہاتھوں کے توتے“ اور ”پیروں کے تیتر“ سب کے سب پھڑپھڑاتے ہوئے بیک وقت اُڑ گئے۔ ہم نے کہاکہ لیاقت آپ! یہ حلیہ، یہ گاڑی، یہ سب کیا ہے؟اس نے کہا کہ میں دس جماعتیں پاس کرتے ہی فرنگستان چلا گیاتھا۔وہاں جا کر مجھے ”پولیٹیکل سائنس“ میں داخلہ ملا۔میں نے خوب محنت سے پڑھا۔ وہاں کی ایک ا ستانی سے میں نے شادی بھی کر لی کیونکہ وہ ”دل لگا کر “پڑھاتی تھی۔اس نے شادی کے فوراً بعد ہی میرا نام لیاکا یا لیاقت کی بجائے ”لائیکاٹ“ رکھ دیا۔میں نے پولیٹیکل سائنس میں ”ماسٹری“ کی ۔ سند ملی تو میری اہلیہ نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے ۔ انتخابات کے ا نعقاد میں 35ماہ باقی ہیںاب آپ کسی لیت و لعل کے بغیر عوامی خدمات کو اپنا شعار بنائیںتاکہ ملکی سیاست میں حصہ لینے کے قابل ہو سکیں۔آپ نے اس ملک کی پارلیمنٹ کا رکن بننا ہے اور اسی دشت کی سیاحی میں دل لگانا ہے تاکہ ایک روز اس ملک کے بڑے سے بڑے سیاسی منصب پر فائز ہو سکیں۔یہ کہہ کر انہوں نے مجھے ایک جھاڑو تھمائی اور ”تحکمانہ گزارش“ کرتے ہوئے کہا کہ پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا ہے ۔ درختوں سے پتے گر رہے ہیں،ہر گھر کے باہر ڈھیر لگا ہے ۔ جائیے ، جھاڑو دیجئے اور پتے صاف کیجئے۔ میں نے اہلیہ کا کہا مانا کیونکہ وہ بہر حال میری سابقہ استانی تھی۔ اگلے روز اس نے کہا کہ آج گھر سے نکل کر دائیں مڑ جائیں اور 5کلومیٹر تک پیدل جائیں۔ راستے میں جو شخصیت پیدل جاتی دکھائی دے اسے ہیلو کہہ کر دریافت کریں کہ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟اس سے اگلے روز میری اہلیہ نے ”فرمان “ جاری کیا کہ آج گھر سے نکل کر بائیں مڑ جائیں اور 5کلومیٹر پیدل جائیں۔ یوںدائیں بائیں اور سامنے ، پیچھے کی 4سمتیںمکمل ہونے کے بعد سلسلہ پھر دائیں سے شروع کر دیاجاتا تھا۔ایک سال کے اندر اندر لوگوں کی بڑی تعداد مجھے جاننے لگی۔ پھر ایک روز میں نے سیاسی جلسہ کیا جس میں عوام نے سہولتیں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جس میں پٹرول اسٹیشنوں پر لیٹرینوں کی تعمیر، ان کی صفائی، کتوں کی باقاعدہ ویکسی نیشن،روزانہ سڑک دھونے کے لئے پانی کی وافر فراہمی اور کچرے کے ڈبوں کی دن میں2 مرتبہ صفائی یقینی بنانے کےلئے کہا گیا تھا۔ میں نے عوام کے مطالبات پورے کرنے کے وعدے کئے۔حاضرینِ جلسہ نے کہا کہ اگر آپ نے وعدے پورے کر دیئے تو ہم آئندہ پارلیمنٹ کےلئے بھی آپ کو ووٹ دیں گے۔یوں میں کامیاب ہو گیا۔ ابتدائی طور پر مجھے جمعداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ آئندہ انتخابات کے موقع پر جب میرا سیاسی جلسہ ہوا تو وہاں ایک عورت نے چلا کر کہا کہ2روز سے میرے گھر کے سامنے پتے بکھرے پڑے ہیں، آپ نے ان کی صفائی نہیں کروائی ، میں اس مرتبہ آپ کو ووٹ نہیں دوں گی۔میںجلسے سے فارغ ہو کر سیدھا اس کے گھرپہنچا۔ باہر سڑک پر بکھرے پتے صاف کئے اوردروازہ کھٹکھٹا کر اس خاتون کو بلا کر اس سے معافی مانگی اور دکھادیا کہ میں نے صفائی کر دی ہے ۔ وہ خاتون کہنے لگی”اوکے! خیال رکھنا!آئندہ ایسا ہوا تو میںتمہیں ووٹ نہیں دوں گی ۔اب میں پکا سیاستدان بن چکا ہوں۔ آئندہ پارلیمنٹ کےلئے انتخاب لڑوں گا۔لائیکاٹ نے ہم سے پوچھا کہ آپ سنائیے، کیا حال ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہمارے سیاسی رہنما نے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ لوگ مجھے آئندہ 5سال کےلئے منتخب کر لیں تو میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردوں گا، مہنگائی کا گلا گھونٹ دوں گا، بیروزگاروں کو نوکریاں دوں گا، غربت مٹا دوں گا، پاکستان کو دنیا کےلئے مثال بنا دوں گا۔ ہم نے ووٹ دے کر اسے کامیاب کرا دیا، اس کے بعد لوڈ شیڈنگ دگنی ہوگئی، مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا، غریب فاقہ کشی پر مجبور ہونے لگے، بیروزگاری میں خوفناک اضافہ ہو گیا۔ اب اگلے”جمہوری انتخابات “میں چندماہ باقی ہیں۔ وہ رہنما 4سال کے بعد سامنے آیا ۔ہم نے کہا کہ وعدے پورے کیوں نہیں کئے؟ اس نے کہاکہ وہ لوگ جھوٹے، عیار، مکار اور بہتان طراز ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نے وعدے پورے نہیں کئے۔2013ءاور2017ءکا موازنہ کر لیں۔ایگریکلچر سیکٹر میں پہلے ”ٹی سی پی“4.5پرسنٹ تھی، آج 3.2ہے۔ میڈیکل فیلڈ میں دیکھیں تو”این ایس آر“ پہلے 72فیصد تھی ، آج150فیصد ہے۔فوڈ سیکٹر میں ”سی اینڈ جی“ پہلے 5.6بلین تھا ،آج 6.8بلین ہے ۔اسی طرح تعلیم کے شعبے میں” ایس آر ٹی“میں پہلے کے مقابلے میں 5.2پرسنٹ کا اضافہ ہوا ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے وعدے پورے نہیں کئے، انہیں شرم آنی چاہئے۔آپ ہم پر لاکھ الزامات رکھیں مگر عوام نے پہلے بھی ہماری کارکردگی دیکھ کر ہی ہمیں ووٹ دیئے تھے، اب بھی وہ ہمارے کاموں کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر ہمیں کامیاب کریں گے۔یہ سن کر جلسے کے شرکا ءنے نعرے”آوے ای آوے“ کے لگانے شروع کر دیئے۔ یہ سن کر لائیکاٹ نے کہا کہ اگر ایک ادھر کے سیاستدانوں کو فرنگستان لے جا کر ایک سال” عوامی خدمت کی تربیت“ دے دی جائے تو پاکستان مثالی ترقی کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: