Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مودی حکومت کی سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی، وجہ سلامتی اورسیاست؟

انڈین ریاست پنجاب کی سرحد پڑوسی ملک پاکستان سے ملتی ہے اور سکیورٹی حکام اس پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
حکام اور ماہرین نے کہا ہے کہ سیاسی و سلامتی کے تحفظات کے تحت انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سکھ علیحدگی پسندوں سے نمٹنے پر مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی ملک کی اس چھوٹی مذہبی اقلیت میں بہت کم حمایت حاصل ہے۔
شمالی انڈیا میں سکھوں کی علیحدہ وطن کی تحریک جسے دہائیوں پہلے کچل دیا گیا تھا حالیہ مہینوں میں عالمی سطح پر ایک بار پھر اُس وقت خبروں میں آئی جب امریکہ اور کینیڈا نے انڈین حکام پر سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کے خلاف قتل کی سازشوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
نئی دہلی نے کینیڈا کے شہر وینکوور کے مضافاتی علاقے میں جون میں ہونے والے سکھ رہنما کے قتل سے کسی بھی تعلق سے انکار کیا لیکن نیویارک میں سکھ رہنما کے قتل کی مبینہ سازش کے بارے میں امریکی خدشات کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سازشیں حکومتی پالیسی نہیں اور وہ بیرون ملک مقیم سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانہ نہیں بنا رہی۔
انڈین حکومت کے عام طور پر واشنگٹن اور کینیڈا سے سفارتی تعلقات دوستانہ رہے ہیں مگر حالیہ واقعات سے تناؤ پیدا ہوا جس نے نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پالیسی اور سکھ علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے بارے میں سوچ کو اُجاگر کیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ نریندر مودی اور اُن کی جماعت بی جے پی اگلے سال منعقد ہونے والے قومی انتخابات جیتنے کے لیے مضبوط پوزیشن میں ہے۔
انڈین سیکورٹی حکام کے مطابق بیرون ملک مقیم سکھ پنجاب میں ہونے والی جرائم سے منسلک ہیں اس لیے اُن کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا چاہیے۔ دوسری جانب سکھ قوم پرست اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم مودی ان کی قیادت کو ختم کرنے اور اپنی ہندو بنیاد پرستی کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مودی کے دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کیونکہ سکھ کسانوں نے ان کی حکومت کو زرعی اصلاحات کی واپسی پر مجبور کر کے سب سے بڑا دھچکا پہنچایا تھا۔

کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کے بعد انڈیا سے سفارتی تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ فوٹو: روئٹرز

سکھ علیحدگی پسندوں کا مطالبہ ہے کہ خالصتان نامی ایک علیحدگی ملک قائم کیا جائے جو انڈین پنجاب کی زمین پر ہو اور جس کو وہ ’پاک لوگوں کی سرزمین‘ قرار دیتے ہیں۔
سکھ مذہب کی بنیاد 15ویں صدی کے آخر میں پنجاب میں رکھی گئی تھی، اور یہ واحد انڈین ریاست ہے جہاں وہ اکثریت میں ہیں۔ انڈیا کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں سکھ دو فیصد سے بھی کم ہیں۔
حالیہ برسوں میں ملکی سطح پر انڈیا میں خالصتان کبھی ایک اہم مسئلہ نہیں رہا۔ خالصتان شورش کو کچلنے کے دوران انڈین سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 80 اور 90 کی دہائی میں ہزاروں افراد قتل کیے گئے۔ 
ایک سینیئر انڈین سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ’خالصتان کو آج پنجاب میں کوئی زمینی حمایت حاصل نہیں، لیکن بیرون ملک کچھ ممتاز علیحدگی پسند رہنما منشیات کے کاروبار اور جرائم کے سنڈیکیٹس چلاتے ہیں اور ان کے پنجاب میں بھی روابط ہیں۔‘
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک اعلیٰ انڈین سکیورٹی اہلکار نے خالصتان کو ’مردہ گھوڑا‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہ ’آپ کو اُن کے متحرک ہونے سے پہلے اُن کے خلاف کام کرنا ہوگا‘ کیونکہ وہ بیرون ملک پیسہ اکٹھا کر رہے ہیں، لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں اور انڈیا کی تقسیم کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔

سکھ انڈیا میں ایک علیحدگی وطن خالصتان کے قیام کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

سابق سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ انڈیا کو ’محتاط رہنا ہوگا‘ کیونکہ یہ معاملہ ’زیرِزمین موجود ہے‘ اور اس کی وجہ پنجاب میں بے روزگاری اور منشیات کا بے تحاشا استعمال ہے۔
انڈین ریاست پنجاب کی سرحد پڑوسی ملک پاکستان سے ملتی ہے اس لیے بھی سکیورٹی حکام اس پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
دونوں افسران نے کہا کہ حالیہ واقعات کی حساسیت کے پیش نظر اُن کے نام ظاہر نہ کیے جائیں۔

شیئر: