Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی ریفرنس، ’بھٹو کے دیگر ورثا بھی فریق بن سکتے ہیں‘

پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے متعلق سپریم کورٹ میں2011 میں دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل نو رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ صدارتی ریفرنس پر عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کی گئی۔
صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ 21 اپریل 2011 کو اس حوالے سے صدارتی حکمنامہ جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ ’بھٹو ریفرنس میں تو کوئی سوالات تھے ہی نہیں تو سپلیمنٹری ریفرنس داخل کیوں کیا گیا؟‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدارتی حکمنامے کے ذریعے بھٹو ریفرنس کے سوالات فریم کیے گئے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’صدارتی ریفرنس کس وکیل نے دائر کیا؟‘ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدارتی ریفرنس 2011 میں بابر اعوان کے ذریعے دائر کیا گیا لیکن ان کا لائسنس دو سال کے لیے معطل ہوا۔
ذوالفقار علی بھٹو کیس کے مدعی احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ صدارتی ریفرنس کی 2012 میں سماعت کے دوران بابر اعوان سے سخت سوالات ہوئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بابر اعوان کے پاس عدالتی سوالات کا جواب نہیں تھا تو وہ مشتعل ہوئے اور عدالت نے ان کا لائسنس منسوخ کیا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے خلاف سال دو ہزار گیارہ میں آصف علی زرداری کی جانب سے آریفرنس دائر کیا گیا تھا (فوٹو: گیٹی امیجز)

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ریفرنس کے سوالات پڑھیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ’اس کیس میں مقرر کیے گئے کئی عدالتی معاون وفات پا چکے ہیں جن میں عاصمہ جہانگیر اور فخرالدین جی ابراہیم شامل ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں نئے عدالتی معاونین مقرر کرے گی۔‘
بلاول بھٹو کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ وہ عدالت میں جسٹس ریٹائرڈ نسیںم حسن شاہ کے انٹرویوز کا ٹرانسکریٹ اور ویڈیوز پیش کریں گے جن میں اعتراف شامل ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ صدارتی ریفرنس میں اب تک کیا احکامات دیے گئے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت نے پنجاب پولیس سے بھٹو ریفرنس کا ریکارڈ منگوایا تھا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’ریفرنس میں توبہ کا تذکرہ کیا گیا کیا کوئی بتائے گا کیوں ذکر ہوا؟ کیا وکیل فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟‘
جس پر وکیل فاروق نائیک نے جواب دیا کہ انہیں علم نہیں جبکہ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ’ماہر نہیں ہوں عدالت کسی عالم کو بلائے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے وکلا سے استفسار کیا کہ ’وہ کون سا قانونی و آئینی سوال ہے جس پر رائے دیں کیونکہ فیصلے پر عمل ہو چکا اور نظرثانی کا مرحلہ بھی کب کا گزر چکا۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو دی جانے والی پھانسی کے خلاف سال دو ہزار گیارہ میں اس وقت کے صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں بھٹو کے ٹرائل اور پھانسی پر نظرثانی کے حوالے سے عدالت سے رائے طلب کی گئی تھی۔
اس ریفرنس میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ کیا بھٹو کے قتل کا مقدمہ آئین میں دیے گیے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا، کیا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدالتی نظیر کے تحت لاگو ہو سکتا ہے، سزائے موت کا یہ فیصلہ منصفانہ اور جانبدارانہ نہیں تھا، کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے اور کیا اس مقدمے میں پیش کیے گیے ثبوت اور گواہان کے بیانات بھٹو کو سزائے موت دینے کے لیے کافی تھے؟
جب یہ صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا اس وقت افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے جن کی سربراہی میں ایک لارجر بینچ نے اس کی چھ ابتدائی سماعتیں کیں۔
تاہم 12 نومبر 2012 کو اس ریفرنس کی چھٹی اور اب تک کی آخری سماعت کے بعد یہ مقدمہ پھرعدالت میں نہیں لگا اور اب 11 سال بعد چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں منگل کے روز اس کو ایک مرتبہ پھر سنا گیا۔

شیئر: