Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سارہ انعام قتل کیس، شاہنواز امیر کو سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانہ

سارہ انعام گزشتہ سال چک شہزاد میں ایک فارم ہاؤس پر مردہ حالت میں پائی گئی تھیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو پھانسی کی سزا سنائی ہے جبکہ مجرم شاہنواز کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کر دیا ہے۔ 
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے سارہ انعام قتل کیس میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور اس کو 14 دسمبر کو سنانے کا اعلان کیا تھا۔
سارہ انعام ایک 37 سالہ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تھیں جو دبئی میں ملازمت کرتی تھیں اور وہ شاہنواز امیر کی اہلیہ تھیں۔
وہ گزشتہ سال ستمبر میں اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک فارم ہاؤس، جہاں وہ اپنے شوہر اور ان کی والدہ ثمینہ شاہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں پر مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ 
سارہ انعام قتل کیس کے 75 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شاہنواز امیر نے جان بوجھ کر سارہ انعام کا قتل کیا۔
سیشن جج ناصر جاوید راجہ نے فیصلے میں لکھا کہ استغاثہ ملزم شاہنواز امیر کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، لہذا عدالت شاہنواز امیر کو مجرم قرار دیتی ہے۔
فیصلے کے مطابق شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو سر پر وزنی ڈمبل کی بار بار بے رحم ضربیں لگا کر قتل کیا، مجرم شاہنواز امیر عدالت کی جانب سے کسی بھی رحم کے مستحق نہیں۔
فیصلے میں مجرم شاہنواز امیر پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے جو سارہ انعام کے لواحقین کو ادا کیا جائے گا اور اگر مجرم شاہنواز امیر جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس سے زمین کے واجبات کی مد میں جرمانہ وصول کیا جائے۔
دیوالیہ ہونے کی صورت میں شاہنواز امیر کو چھ ماہ کی قید مزید بھگتنا ہوگی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس مال مقدمہ کی مد میں تحویل میں لیے گئے سارا انعام کے خون آلودہ کپڑے اور دیگر چیزیں مقتولہ کے والد کو لوٹائے۔
عدالت کے مطابق جہاں تک شریک ملزمہ سمینہ شاہ کا تعلق ہے انہیں ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا، سمینہ شاہ پر قتل میں معاونت کے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ شریک ملزمہ سمینہ شاہ کو شک کا فائدہ دے کر مقدمے سے بری کیا جاتا ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم شاہنواز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے حتمی دلائل دیتے ہوئے پولیس کی تفتیش پر سوالات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ مقدمے کی بنیاد صرف مدعی کا بیان ہے۔
مقدمے کی گزشتہ سماعت میں ملزم شاہ نواز امیر کی والدہ اور مقدمے میں نامزد شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی موکلہ پر الزام صرف سارہ انعام کے قتل کی معاونت کا ہے، لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے اپنے حتمی دلائل میں عدالت کو بتایا تھا کہ ’سارہ انعام کو متعدد زخم آئے تھے اور طبی رپورٹ کے مطابق سارہ انعام کی موت بالخصوص سر پر لگے متعدد زخموں اور ہڈیاں ٹوٹنے کے باعث ہوئی نہ کہ حرکت قلب بند ہونے سے۔‘

عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ نواز امیر کا ڈی این اے سارہ انعام کے ساتھ میچ ہوا اور ان کے ایک ساتھ رہنے کی بات بھی ثابت ہو گئی۔ ان کا  کسی تیسرے شخص کے ساتھ ڈی این اے میچ نہیں ہوا جس کا مطلب ہے کہ ان کے قتل کا شک کسی اور پر نہیں کیا جا سکتا۔
مدعی وکیل راؤ عبدالرحیم نے عدالت کے سامنے جائے وقوعہ کے تصاویری شواہد پیش کیے اور عدالت کو بتایا گیا کہ جائے وقوعہ کی تصاویر شاہ نواز امیر کے موبائل سے بنائی گئی تھیں۔
مرکزی ملزم کی والدہ ملزمہ ثمینہ شاہ نے دوران سماعت عدالت کو بتایا تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں تھیں جب انہیں شاہ نواز کی کال آئی۔ ’جب کمرے میں گئی تو شاہ نواز اپنے ہوش حواس میں نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خود شاہنواز کے والد اور سینیئر صحافی ایاز امیر کو کال کی اور انہیں اس واقعے کے بارے میں بتایا۔
ثمینہ شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ایاز امیر نے انہیں کہا کہ شاہ نواز امیر کو باندھ کر کمرے میں بند کر دیں تا کہ وہ بھاگ نہ سکے۔ ’ایاز امیر نے پوچھا کہ بچی زندہ ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ اس کی موت ہو چکی۔‘
ثمینہ شاہ کمرۂ عدالت میں یہ واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ بھی ہو گئی تھیں اور انہوں نے کہا تھا کہ سارہ بہت پیاری بچی تھی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف دونوں فریقین اعلٰی عدالتوں میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔

شیئر: