Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا میں انتخابی سرگرمیاں، ن لیگ کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے؟

مالاکنڈ ڈویژن میں ن لیگ کی سیاسی پوزیشن کمزور سمجھی جا رہی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
پاکستان میں عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو تمام پارٹیوں کی جانب سے جلسوں اور ورکرز کنونشن کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے تاہم مسلم لیگ ن ابھی تک کوئی بڑی سیاسی سرگرمی کرتی نظر نہیں آئی۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، تحریک انصاف پارلیمنٹیرین، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتیں ورکرز کی انتخابی مہم میں بھرپو شرکت کے لیے عوامی رابطے کر رہی ہیں لیکن ن لیگ کے قائدین منظرِعام سے غائب ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں ن لیگ اپنے اندرونی اختلافات سے کافی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ نواز شریف کے وطن چھوڑ جانے کے بعد صوبے کے سینیئر اور نظریاتی رہنماؤں نے ایک الگ دھڑا بنا لیا تھا۔
اسی دوران نظریاتی ورکرز کا ن لیگ کے صوبائی صدر امیر مقام کو ہٹانے اور ازسر نو تنظیم سازی کا مطالبہ سامنے آیا مگر امیر مقام نے کچھ قائدین کو بہلا کر اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ 
سینیئر رہنما اور نواز شریف کے قریبی دوست کا پارٹی سے علیحدگی کا اعلان
دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلٰی و گورنر اور ن لیگ کے سینیئر رہنما سردار مہتاب عباسی کے اپنی پارٹی قیادت سے اختلافات ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ انہوں نے عام انتخابات میں پارٹی کی بجائے آزاد حیثیت سے ہزارہ ڈویژن سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نواز شریف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے سردار مہتاب عباسی کی پارٹی سے علیحدگی پر ن لیگ کو الیکشن میں نقصان ہو سکتا ہے مگر ہزارہ سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سابق ایم پی اے اورنگزیب نلوٹا سمجھتے ہیں کہ کسی شخصیت کے چلے جانے سے پارٹی کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

ن لیگ کے خیال میں ہزارہ ڈویژن میں ان کا ووٹ ابھی بھی موجود ہے۔ فوٹو: روئٹرز

اورنگزیب نلوٹا نے اردو نیوز کو بتایا کہ عوام نظریے کو ووٹ ڈ التے ہیں کسی فرد کو نہیں، نواز شریف کے ووٹر موجود ہیں چاہے امیدوار کوئی بھی ہو۔
ان کے مطابق ن لیگ ہزارہ ڈویژن میں کلین سویپ کرے گی، 2018 کے الیکشن میں بھی 4 ایم پی ایز کامیاب ہوئے تھے جبکہ آئندہ انتخابات میں 12 سے 14 تک سیٹیں نکال لیں گے۔
اس کے برعکس نظریاتی کارکنان کے خیال میں اندرونی اختلافات نے پارٹی کو کمزور کر دیا ہے اور ورکرز نالاں ہیں لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔
کارکنان کے مطابق پارٹی قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد کسی حد تک حد معاملات حل ہوئے ہیں مگر خواہش ہے کہ نواز شریف خود اس صوبے کا دورہ کریں تاکہ ورکرز کو پھر اکٹھا کیا جا سکے۔ 
خیبرپختونخوا میں ن لیگ کی پوزیشن کہاں کمزور ہے؟ 
خیبرپختونخوا کی مالاکنڈ ڈویژن میں ن لیگ کی پوزیشن کمزور سمجھی جا رہی ہے تاہم ہزارہ ڈویژن میں لیگی ووٹ بینک ابھی بھی موجود ہے۔
اسی طرح جنوبی اضلاع میں ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ نے جمیعت علماء اسلام کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ پشاور اور ملحقہ حلقوں میں بھی مسلم لیگ ن دیگر پارٹیوں سے اتحاد یا پھر سیٹ ایڈجسمنٹ کو ترجیح دے گی۔
ن لیگ کا ووٹ بینک کمزور ہونے کی وجہ کیا ہے؟ 
پشاور کے سینیئر صحافی محمود جان بابر کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی مقبول ترین جماعت ہے اور صوبے میں ان کا ووٹ سب سے زیادہ ہے جبکہ ن لیگ اور دیگر جماعتوں کی مقبولیت کا گراف بہت گر چکا ہے۔
’اس وقت بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اگر الیکشن میں پی ٹی آئی کو کھیلنے کا موقع ملا تو ساری وکٹیں لے جائیں گی۔‘

ن لیگ کے رہنما مہتاب عباسی نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: اےپی پی

سینیئر صحافی شمیم شاہد کا مؤقف ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کے لیے یہ الیکشن بہت مشکل ہوگا۔
’زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو پی ایم ایل اور دیگر جماعتوں کے ورکرز موجود ہیں مگر رہنما دکھائی نہیں دے رہے، اسی وجہ سے کارکنوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔‘
واضح رہے کہ 18 دسمبر کو مسلم لیگ ن کے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں نواز شریف نے خیبرپختونخوا کے عوام بالخصوص ضلع چترال کے لوگوں سے شکوہ بھی کیا اور لواری ٹنل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ میگا منصوبہ ان کے دور میں مکمل ہوا لیکن ووٹ کسی اور جماعت کو دیا گیا۔

شیئر: