Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش: انتخابات کی پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا آغاز، اپوزیشن کا بائیکاٹ

حسینہ واجد نے کہا کہ ’بنگلہ دیش ایک خودمختار ملک ہے اور عوام میری طاقت ہیں۔‘ (فوٹو: اے پی)
بنگلہ دیش میں عام انتخابات کی پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہو گیا ہے اور اپوزیشن کی بائیکاٹ کی وجہ سے حسینہ واجد کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حسینہ واجد نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعت کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان شریف العالم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ووٹوں کی گنتی کا آغاز ہو گیا ہے۔‘ بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے لیے آج اتوار کو پولنگ ہوئی تاہم اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے دو روزہ ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اتوار کو پولنگ شروع ہونے کے فوراً بعد وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
اپنی بیٹی اور اہل خانہ کے دیگر افراد کے ہمراہ شیخ حسینہ واجد نے دارالحکومت ڈھاکہ کے سٹی کالج میں مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے پولنگ شروع ہونے کے چند منٹ بعد ووٹ ڈالا۔ حسینہ واجد نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ’بنگلہ دیش ایک خودمختار ملک ہے اور عوام میری طاقت ہیں۔‘
بنگلہ دیشی وزیراعظم نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی پارٹی عوام کا مینڈیٹ حاصل کرے گی جس سے وہ پانچویں بار اقتدار میں آئیں گی۔
حسینہ واجد نے کہا کہ انہیں کسی پر الیکشن کی شفافیت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’مجھے بنگلہ دیش کے لوگوں کو جواب دینا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش کے عوام اس انتخاب کو قبول کرتے ہیں۔‘
پولنگ اتوار کی شام چار بجے تک جاری رہے گی جس کے بعد ووٹوں کی گنتی ہو گی جبکہ ابتدائی نتائج پیر کی صبح متوقع ہیں۔
گزشتہ ہفتے کئی پولنگ بُوتھ، سکولوں اور ایک بدھ خانقاہ کو نذر آتش کرنے کے بعد سنیچر کو ایک مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ یہ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔
ووٹنگ کے دن تاحال تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور تقریباً آٹھ لاکھ سکیورٹی فورسز پولنگ بُوتھ کی حفاظت پر مامور ہیں۔

بنگلہ دیش نے آٹھ لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کو ملک بھر میں تعینات کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) گذشتہ ایک برس سے شیخ حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے اور غیر جانبدار حکومت کی جانب سے انتخابات کا انعقاد کروانے کے لیے احتجاج کر رہی ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے ایک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ 1971 میں پاکستان سے آزادی کے بعد سے یہ اس ملک کا 12 واں الیکشن ہے۔
120 ملین ووٹرز 300 براہ راست منتخب پارلیمانی نشستوں کے لیے تقریباً دو ہزار امیدواروں میں سے انتخاب کریں گے جن میں 436 آزاد امیدوار ہیں۔
بی این پی کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ نے الیکشن کو قابل اعتبار بنانے کی کوشش کے لیے آزاد امیدواروں کے طور پر ’ڈمی امیدوار‘ کھڑے کیے ہیں جبکہ حکمران جماعت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے ایک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بی این پی جس نے 2014 کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا تھا اور 2018 میں الیکشن میں حصہ لیا تھا، نے لوگوں کو اتوار کے انتخابات سے دور رہنے کو کہا ہے اور سنیچر سے ملک بھر میں دو روزہ ہڑتال کی کال دی ہے۔
شیخ حسینہ کئی مرتبہ نگراں سیٹ اپ کی مخالفت کر چکی ہیں اور بی این پی پر ’دہشت گردی اور فسادات‘ کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
بنگلہ دیش کی معیشت اور ملبوسات کی صنعت میں ترقی کا کریڈٹ 76 سالہ شیخ حسینہ واجد کی اقتدار کو دیا جاتا ہے تاہم ناقدین نے ان پر آمریت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادی اظہار پر کریک ڈاؤن اور اختلاف رائے کو دبانے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔

شیئر: