Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا وہ حلقہ جہاں سے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک مضبوط ہو سکتا ہے

پاکستان میں فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی نے باقاعدہ طور پر اپنی الیکشن مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے عام انتخابات 2024 کے لیے اپنی کیمپین کا آغاز لاہور سے کیا ہے۔ دو روز قبل لاہور کے بلاول ہاؤس میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے متفقہ طور پر آئندہ انتخابات میں بلاول بھٹو کو اپنا وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کی شروعات کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ سے اپنے آبائی حلقے کے ساتھ ساتھ لاہور کے حلقہ این اے 127 سے بھی قومی اسمبلی کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں جو اعتراضات کے باوجود ریٹرننگ افسر نے منظور کر لیے ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی اس حلقے سے کامیابی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی رکھتی ہے۔

حلقہ این اے 127 ہے کیا؟

پیپلزپارٹی کی حکمت عملی کیا ہو گی اور یہ حلقہ پارٹی کے لیے اتنا اہم کیوں ہے، اس پر بات کرنے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں لاہور کا حلقہ این اے 127 نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے بعد کن کن علاقوں پر مشتمل ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے عام انتخابات 2024 کے لیے جاری کی گئی حلقہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے تواس حلقے کا مرکزی حصہ ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن، کوٹ لکھپت اور چونگی امرسدھو کی گنجان آبادیوں پر مشتمل ہے۔
صرف یہی نہیں اس علاقے میں دو گنجان آباد مسیحی بستیاں مریم کالونی اور بہار کالونی بھی واقع ہیں۔
قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ بھی اسی حلقے میں ہے جبکہ ماڈل ٹاؤن، جوہر ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن کے کچھ علاقے بھی حلقہ این اے 127 میں شامل ہیں۔
اس حلقے کی کل آبادی 9 لاکھ کے قریب نفوس پر مشتمل ہے جبکہ یہاں چار لاکھ کے قریب ووٹرز ہیں۔ 

پیپلزپارٹی کی حلقے میں دلچسپی کیوں؟

اس بات کو سمجھنے سے پہلے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے آخر بلاول بھٹو زرداری کو اس حلقے سے میدان میں کیوں اُتارا؟ اس حلقے کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
دو دہائیوں پر محیط سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو سال 2002 میں جب پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت زیر عتاب تھی اور چوہدری برادران کی مسلم لیگ ق کا دور دورہ تھا۔ عام انتخابات 2002 میں اس حلقے سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری منتخب ہوئے۔ انہوں ق لیگ کے اس وقت کے امیدوار عبدالعلیم خان اور ن لیگ کے نصیر بھٹہ کو شکست دی تھی۔
سنہ 2008 کے انتخابات میں ن لیگ کی قیادت جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچ چکی تھی تو اس حلقے سے نصیر بھٹہ نے پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ریاض اور ق لیگ کے عبدالعلیم خان کو شکست دی۔
اسی طرح سنہ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں یہ سیٹ ن لیگ کے پاس رہی۔ تاہم 2018 حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے باعث اس حلقے کا نمبر این اے 133 ہو چکا تھا اور یہاں سے مسلم لیگ ن کے لاہور کے صدر پرویز ملک منتخب ہوئے تھے۔
سیاسی اور انتخابی تجزیہ کار افتخار احمد بتاتے ہیں کہ ’2021 میں پرویز ملک کا انتقال ہوا تو ان کی خالی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک نے حصہ لیا۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی 22 ہزار ووٹ تھے، پیپلزپارٹی نے اسی کو دوبارہ واپس لینے کے لیے اسلم گل کو شائستہ پرویز ملک کے مقابلے میں کھڑا کیا۔ آصف زرداری نے اس الیکشن میں بہت دلچسپی لی۔ انہوں جو بھی طریقہ اپنایا وہ کام کر گیا اور ضمنی انتخابات میں انہوں نے 33 ہزار ووٹ حاصل کیے حالانکہ پرویز ملک کے مقابلے میں پی پی پی نے ساڑھے پانچ ہزار ووٹ لیے تھے اور ٹی ایل پی سے بھی پیچھے رہے تھے۔‘

حلقہ این اے 127 کی کل آبادی 9 لاکھ کے قریب نفوس پر مشتمل ہے جبکہ یہاں چار لاکھ کے قریب ووٹرز ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسی حلقے کے ووٹر اور سینیئر صحافی نعیم قیصر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس حلقے میں دو بڑی مسیحی بستیاں بہار کالونی اور مریم کالوںی واقع ہیں۔ ان کا ووٹ فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو لبرل جماعت قرار دینے والی پیپلزپارٹی کے لیے اس ووٹ کو سمیٹنا بظاہر آسان ہدف  ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب طاہرالقادری اس حلقے سے جیتے تھے تو انہوں نے اپنی وکٹری سپیچ میں کہا تھا کہ ان کو 54 ہزار مسیحیوں نے ووٹ ڈالا ہے۔‘
اقلیتی برادری کے ووٹ کے ساتھ ساتھ دوسرے فیکٹر بھی ہیں۔ افتخار احمد کہتے ہیں کہ ’ضمنی انتخابات میں زرداری فارمولہ کامیاب ہونے کے بعد اسی وقت ہی فیصلہ ہو گیا کہ بلاول کو لاہور سے اسی نشست پر الیکشن لڑوایا جائے گا۔ اگر بلاول لاہور سے یہ سیٹ جیتتے ہیں تو یہ علامتی طور پر ایک بڑی بات ہو گی اور یہی پیپلزپارٹی چاہتی ہے جس کا ووٹ بینک لاہور میں بہت کمزور ہو چکا ہے۔‘

نواز شریف اس حلقے میں آخری مرتبہ کب آئے؟

سنہ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے اعجاز چوہدری نے اس حلقے سے 77 ہزار ووٹ لیے تھے تاہم وہ پھر بھی 12 ہزار ووٹوں سے ن لیگ کے پرویز ملک سے ہار گئے تھے۔ 
نعیم قیصر کہتے ہیں کہ ’طاہر القادری چونکہ شریف خاندان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے انہیں ن لیگ کے ووٹ بینک کا فائدہ بھی ہوا۔ اس حلقے میں نواز شریف آخری بار 1995 کے انتخابات میں خود الیکشن مہم چلانے آئے تھے۔ اس کے بعد وہ کبھی بھی نہیں آئے لیکن ان کا اُس وقت کا ووٹ بنک اس علاقے میں موجود ہے اور جس کسی کو بھی ن لیگ کی ٹکٹ ملی وہی جیتا۔‘
مسلم لیگ ن کی طرف سے ابھی تک اس حلقے میں کسی امیدوار کا تعین نہیں کیا گیا تاہم ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ ن لیگ کے عطااللہ تارڑ سال 2024 کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوں گے۔ 

شیئر: