Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ کا 100 سال پرانا بازار ’سوق البدو‘، سیاح خاص طور پر یہاں آتے ہیں

یہ مارکیٹ جدہ تاریخیہ کے علاقے میں ہے۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)
جدہ میں 100 سال سے کہیں زیادہ پرانے بازار ’سوق البدو‘ کی پہچان یہ ہے کہ جو چیز کہیں اور نہیں ملتی وہ اس تاریخی مارکیٹ میں مل جاتی ہے۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق سوق البدو مغربی سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ کے  تاریخی علاقے میں واقع ہے۔ 
سوق البدو زنانہ ملبوسات اور کپڑوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اسے سیاح خاص طور پر دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
اس بازار کی ایک شناخت یہ ہے کہ یہاں خواتین دیسی سامان فروخت کرنے کے لیے بستے لگاتی ہیں۔
یہاں بخور، برقعے اور خواتین  کے زیر استعمال دیگر دیسی سامان فروخت ہوتا ہے، جسے خواتین  بھی فروخت کرتی ہیں۔
سوق البدو کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ صحرا نشینوں کی ضروریات پورا کرنے والا بازار ہے، لیکن آج کل یہاں زیادہ تر دکانوں پر زنانہ ملبوسات فروخت کیے جانے لگے ہیں۔ یہ ملبوسات اور کپڑے مختلف رنگ و شکل اور معیار کے ہوتے ہیں۔ قیمتیں یکساں نہیں ہوتیں۔ ایک میٹر کپڑا 15 اور 35 ریال تک میں دستیاب ہے۔ 
ماضی میں یہاں تانبے، پیتل اور دیگر دھاتوں سے بنے برتنوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ دیگچیوں کی اصلاح و مرمت کرنے والی دکانیں بھی ہوتی تھیں۔
ماضی میں اس بازار میں خوردنی تیل، شہد، دیسی گھی اور انواع و اقسام کی دیسی اشیا فروخت ہوتی تھیں، لیکن آج کل اس قسم کی اشیا فروخت کرنے والی دکانیں سوق البدو میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ 
ماضی میں دکانوں کے اصل مالکان ہی گاہکوں کے ساتھ لین دین کیا کرتے تھے مگر اب یا تو ان کی اولادیں دکان چلا رہی ہے یا ان کی جگہ غیرملکی کارکن آگئے ہیں۔ 

احمد باقیس کی سوق البدو میں کپڑے کی دکان ہے۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

سوق البدو میں کپڑے فروخت کرنے والے احمد باقیس نے تاریخی بازار کے حوالے سے کئی راز کی باتیں بتائیں۔
احمد باقیس کا کہنا تھا کہ سچی بات یہ ہے کہ یہ عوامی بازار ہے۔ عام لوگ یہاں آکر اپنی پسند کی چیزیں پا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔  
باقیس نے کہا کہ بچپن سے ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ سوق البدو آتے ہیں۔ جوانی کی یادیں کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔ 

ام حمزہ بازار میں اپنا بستہ لگاتی ہیں۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

باقیس نے کہا کہ آج کل وہ عصر کے وقت سوق البدو میں اپنی دکان پر آتے ہیں اور رات دس بجے دکان بند کردیتے ہیں۔ 
پہلے لوگ اپنی شناخت کا دھیان رکھتے تھے مگر اب جو ثقافتی تبدیلی آرہی ہے اور نئی نسل اس سے متاثر ہورہی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ نئی نسل کو عوامی مزاج اور تاریخی ورثے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ 
باقیس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اولاد اور نواسوں و پوتوں میں تاریخی ورثے سے پیار پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ انہیں اپنے ہمراہ دکان پر لاتے ہیں۔ وہ خود بھی دکان کے معاملات دیکھتے ہیں اور ان بچوں کو بھی ماضی کے حالات سے آگاہ کرتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ آباؤ اجداد کے کام میں جو مہارت آپ حاصل  کرسکتے ہیں کسی اور کام میں نہیں۔ 
سوق بدو میں بستہ لگانے والی سعودی خاتون ام حمزہ بھی ہیں۔
ام حمزہ  کا کہنا ہے کہ یہ بستہ ان کی والدہ لگاتی تھیں مگر خراب صحت کی وجہ سے اب وہ یہاں آتی ہیں۔ 
ام حمزہ کا کہنا ہے کہ وہ یہاں خواتین سے متعلق اشیا، بخور و خوشبویات فروخت کرتی ہیں۔
سوق البدو سو سال قبل تاریخی علاقے کی قدیم فصیل کے باہر سے آنے والوں کا پہلا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ 
ماضی میں یہاں آس پاس کے دیہاتوں کے باشندے اور صحرا نشین ضرورت کا سامان خریدنے آتے تھے۔ 
سوق البدو آنے والے گاہک موسم گرما میں دھوپ سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہاں سائبان کا انتظام ہے۔ یہاں بڑی راہداری ہے جس کے اطراف مختلف اشیا فروخت کرنے والی دکانیں ہیں۔ جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والی دکانیں اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔
سوق بدو میں پرانے زمانے کے پکوان فروخت کرنے والے ریستوران بھی ہیں۔ یہاں بیٹھ کر لوگ پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔
 
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: