Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دُلا بھٹی کی موت نے ’لوہڑی‘ کو ایسے ہیرو سے جوڑا جس کی پنجاب کو ضرورت تھی

سرحد کے دونوں پار لوہڑی تہوار پر لوگ الاؤ بھی جلاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب میں زبانی تاریخ لکھے جانے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ جنگوں کی تاریخ پر واریں لکھی گئیں۔ ’چھٹوں کی وار‘ ایک ایسی ہی رزمیہ نظم ہے جسے پنجابی شاعری میں ایک الگ صنف کا درجہ حاصل ہے۔
آج لوہڑی کا تہوار ہے۔ پنجاب کے کئی حصوں میں تقسیم ہو جانے کے باوجود یہ تہوار دھرتی کے مزاحمتی رنگوں کو نمایاں کرتا ہے جس کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں، تاہم لوہڑی کے حوالے سے گائے جانے والے گیتوں سے ساندل بار کے دُلا بھٹی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
پنجاب کے رابن ہُڈ کے نام سے معروف یہ دُلا بھٹی کون تھا جو تاریخ کے ان چند کرداروں میں سے ایک ہے جسے سرحد کے دونوں طرف ہیرو مانا جاتا ہے؟
تیرا ساندل دادا ماریا
دتا بورے وچ پا
مغلیاں پٹھیاں کھالاں لاہ کے
بھریاں نال ہوا
(ترجمہ: میں نے دیکھا کہ مغلوں نے تمہارے دادا  ساندل کو قتل کرنے کے بعد لاش تہہ خانے میں پھینک دی اور تمہارے عزیزوں کی کھالیں کھینچ کر ان میں ہوا بھر دی۔)
یہ ساندل بار کے دُلا بھٹی کی کہانی ہے جو سوہنی کے چناب کے کنارے لکھی گئی۔ یہ پنجاب کے قصبے پنڈی بھٹیاں کے اس سپوت کی کہانی ہے جس نے مغلوں کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا۔
لوہڑی کے تہوار پر الہڑ مٹیاریں دُلا بھٹی کو اپنے روایتی گیتوں میں یاد کرتی ہیں جو پنجاب کے لوک ادب کا اہم حصہ ہیں۔
روایات کے مطابق شہنشاہ اکبر کے کارندوں نے دو ہندو بہنوں سندری اور مندری کو اغوا کرنے کی کوشش کی تو راجپوت جوان کا خون کھول اٹھا۔ یہ دونوں بہنیں ایک ہندو پنڈت کی بیٹیاں تھیں مگر دُلا بھٹی نے ناصرف ان کی جان بچائی بلکہ ان کی شادی بھی کروائی۔
دُلا بھٹی مسلمان تھا مگر اس نے ہندو بہنوں کو رُخصت کرتے ہوئے شکر دی اور کہا کہ ’بیٹیوں کو ایسے رُخصت کیا جاتا ہے۔

اس تہوار پر نوجوان اکٹھے ہوتے ہیں اور بحث مباحثہ بھی کرتے ہیں۔ (فوٹو: احمد اقبال بزمی)

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغل ہرکاروں نے دُلا بھٹی کے والد فرید بھٹی اور دادا ساندل بھٹی کو بھی مروایا تھا۔ چار صدیاں قبل ساندل بار کے علاقے میں ہوئے اس ظلم کے خلاف ایک ایسی مزاحمتی تحریک ابھری جس نے سلطنتِ مغلیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔
دُلا بھٹی کی پیدائش سال1547 میں پھنڈی بھٹیاں میں دریائے چناب کے کنارے چوچک کے قریب بدر کے مقام پر ہوئی۔ عبداللہ بھٹی ابھی پالنے میں ہی تھا جب اس کی ماں اسے اس کے دادا ساندل اور والد فرید پر ہونے والے مظالم سے متعلق لوریاں سنایا کرتی۔ وہ اپنے سپوت کو مغلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی تھی۔
دُلا بھٹی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کے خون نے بھی جوش مارا۔ وہ مغلوں سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اپنے دادا اور والد کی موت کا ہی نہیں بلکہ ان مظالم کا بھی جو ساندل بار کے کسان برداشت کر رہے تھے۔ یہ وسطی پنجاب میں مغلوں کے خلاف ایک ایسی تحریک تھی جس نے علاقے کے تمام سرداروں کو متحد کر دیا تھا جس کے باعث مغلوں کے قافلوں کا ساندل بار سے گزرنا ناممکن ہو گیا تھا، جس پر مزید بات کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ لوہڑی کا تہوار منایا ہی کیوں جاتا ہے۔
ایک روایت ہے کہ یہ ایک موسمی تہوار ہے اور جس دن کماد (گنے) کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے اور کاٹی جاتی ہے تو اس سے ایک دن پہلے کسان گنا کاٹ کر اسے چکھتے ہیں اور میٹھا ہونے پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔
گاؤں میں آگ کا الاؤ جلایا جاتا ہے جس کو بھڑکانے کے لیے اس کے اوپر دیسی گھی، کماد، چینی اور دوسری اجناس کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چھڑکاؤ والا یہ عمل ‘اگنی دیوتا‘ کو خوش کرنے کے لیے کی جانے والا ’سناتن دھرم‘ کی ایک عبادت ہے۔
اس دن گاؤں کے بچے گھر گھر جاکر ’لوہڑی‘ لیتے ہیں جس میں لکڑی، کماد، کپاس، چاول، گھی، اناج اور نقد رقم بھی شامل ہے۔ بچے یہ چیزیں جمع کرکے اسی شام میدان میں جمع ہوتے ہیں اور سب مل کر جشن مناتے ہیں۔

26 مارچ 1599 کو دہلی دروازے کے باہر چوک پر دُلا بھٹی کو سولی پر چڑھا دیا گیا (فوٹو: سوشل میڈیا)

لوہڑی کے حوالے سے ایک اور روایت یہ ہے کہ یہ محبت کرنے والوں کا دن ہے جس دن سردیوں کا زور ٹوٹتا ہے اور کماد کی فصل تیار ہوتی ہے تو اس دن ہر نوجوان آگ کا الاؤ جلا کر کماد کو ہاتھ میں اٹھا کر اعلان کرتا ہے کہ ’میں گاؤں میں فلاں محلے میں رہنے والی فلاں لڑکی سے محبت کرتا ہوں اور آج اسے شادی کی دعوت دیتا ہوں۔ جاؤ اور جاکر اسے بتا دو۔ وہ اگر تیار ہے تو میں آج ہی اس سے شادی کرنے پر تیار ہوں۔
یہ اختیار اب لڑکی کو حاصل ہے کہ وہ شادی کی دعوت کو قبول کرے یا رَد کرے مگر نوجوان کے یوں اظہارِ محبت کو معیوب خیال نہیں کیا جاتا۔
ان تمام روایات کے باوجود لوہڑی پر گائے جانے والا گیت اس دُلا بھٹی کی یاد دلاتا ہے جس نے طاقت ور ترین مغل حکمراں اکبر کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا۔
سندر مندریے (خوبصورت لڑکی) تیرا کون وچارا (تمہارے متعلق کون سوچتا ہے؟) دُلّا بھٹی والا (بھٹی قبیلے کا دلا) دُلے دھی ویائی (دُلے نے بیٹی کی شادی کی) سیر شکر پائی (اسے ایک سیر شکر دی) کڑی دا لال پٹاکا (لڑکی نے سرخ کپڑے پہن رکھے ہیں) کڑی دا سالو پاٹا (لڑکی کی شال پھٹی ہوئی ہے)۔
یہ ایک طویل گیت ہے جس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ لوہڑی کا تہوار اگر موسم کی تبدیلی یا گنے کی فصل کی کاشت پر بھی منایا جاتا ہے تو اس کی دُلا بھٹی سے نسبت زبانی تاریخ سے ثابت شدہ ہے۔
بات دُلا بھٹی کی ہو رہی تھی جس کی بغاوت نے شہنشاہ اکبر کو پریشان کر دیا جنہیں اپنا پایۂ تحت فتح پور سیکری چھوڑ کر لاہور آکر ڈیرے ڈالنے پڑے۔
دُلا بھٹی اور اس کے ساتھی مغل قافلوں کو لوٹتے رہے۔ وہ لوٹ کا مال علاقے کے کسانوں میں تقسیم کر دیتے۔ مغل فوج نے دُلا بھٹی کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے بعد اسے گرفتار کر لیا اور لاہور لے آئے۔

سرحد کے دونوں طرف پنجاب میں لوہڑی تہوار منایا جاتا ہے۔ (فوٹو: احمد اقبال بزمی)

معروف سیاست دان اعتزاز احسن اپنی کتاب ’سندھ ساگر‘ میں دُلا بھٹی کی مزاحمت کو کسانوں کی تحریک کا نام دیتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’وادیِ سندھ اور وادیِ ہند کا کسان انتہائی تنگی و عسرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تھا جب کہ حکمراں شہزادوں اور جاگیرداروں کا طرزِ زندگی اصراف اور عیاشی کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ ان شاہ خرچیوں کو برقرار رکھنے کے لیے محاصل میں من مانے اور مسلسل اضافے کیے جاتے۔‘
’بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کسانوں کے ڈھور ڈنگر اور زرعی آلات چھین لیے جاتے۔ قسمت کے مارے کسان کو سرکار کے لیے بلامعاوضہ مشقت بھی کرنی پڑتی۔ جب بھی کسی بادشاہ کو قلعہ یا کوئی شہر تعمیر کرنا ہوتا تو قرب و جوار کے علاقوں میں ہر شخص کو تعمیراتی کاموں میں حصہ لینے کا حکم جاری کر دیا جاتا جسے ’بیگار‘ کا نام دیا جاتا تھا۔‘
’کسان اس بدترین صورتحال سے عاجز آ چکے تھا، وہ بغاوت کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ اسے محض قیادت کا انتظار تھا اور پنجاب میں اسے یہ قیادت میسر آگئی تھی اور اس نے سرکاری قافلوں کو لوٹنا شروع کر دیا تھا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’دُلا بھٹی کی مزاحمت سے دہقانوں کی حالت زار تو شاید نہ بدل سکی لیکن مقامی زمین داروں کو زیادہ خودمختاری مل گئی۔
لاہور میں دُلا بھٹی کو جب گرفتار کر کے شہنشاہ اکبر کے سامنے پیش کیا گیا اور اطاعت پر مجبور کیا گیا تو اس نے انکار کر دیا۔ اس وقت دُلا بھٹی پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور اسے تختہ دار پر لٹکائے جانے کا حکم ہوا۔
26 مارچ 1599 کو دہلی دروازے کے باہر چوک پر دُلا بھٹی کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔
مشہور صوفی شاعر شاہ حسین بھی اس وقت وہاں آ گئے۔ انہوں نے جھوم جھوم کر رقص کرنا شروع کر دیا اور یہ اشعار پڑھے:
کہے حسین فقیر سائیں دا
تخت نہ ملدے منگے
ایک اور روایت کا ذکر کرنا بھی ازبس ضروری ہے جو دُلا بھٹی کے حوالے سے ہی ہے۔
ایک دن ساندل بھٹی کی بہو اور فرید بھٹی کی بیوی کو اس وقت اکبر کے دربار میں پیش کیا گیا جب اس کی گود میں اس کا بچہ دُلا تھا۔ اکبر نے جب اس بچے کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھا تو دو معصوم آنکھوں نے مسکرا کر اس کا استقبال کیا۔ لیکن اپنے عہد کا ذہین ترین حکمراں اکبر اس بچے کی معصوم آنکھوں میں مستقبل کی ساری کہانی پڑھ چکا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اگر بچے کو مارتا ہے تو علاقے کے راجپوت، بھٹی اور جاٹ حکومت کی اطاعت چھوڑ دیں گے۔‘
’اگر اسے چھوڑتا ہے تو یہ بچہ بغاوت کی بھٹی تپائے رکھے گا۔ شہنشاہ اکبر مقامی قبائل کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے دُلا بھٹی کو اپنے ساتھ محل میں لے گیا اور حکم دیا کہ اس کی پرورش اس طرح کی جائے کہ وہ اسے (شہنشاہ اکبر) اپنا محسن سمجھے۔ یوں دُلا محل میں اکبر کے بیٹے کی طرح پرورش پانے لگا۔ جہانگیر اور دُلا کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی جا رہی تھی۔ سالہا سال یوں ہی گزر گئے۔‘
’دُلا جب جوان ہوا تو لوگ اُس کی وجاہت اور طاقت کو دیکھ کر اَش اَش کر اٹھتے۔ وہ جب اپنے گاؤں واپس لوٹا تو قبیلے کے لوگ خود پر فخر کرنے لگے۔ بڑی بوڑھیاں دیکھتیں تو بے ساختہ کہہ اٹھتیں، ’ہائے! ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹا اپنے باپ پر گیا ہے، شیر جوان….‘
’دُلا کی ماں کے سینے میں برسہا برس سے انتقام کا جذبہ پروان چڑھ رہا تھا۔ یہ آگ اس نے اپنے بیٹے کے اندر یہ کہہ کر منتقل کر دی کہ ’درباریوں نے تمہارے دادا ساندل کو قتل کر کے لاش تہہ خانے میں پھینک دی تھی۔
چنانچہ دُلا بھٹی نے اپنے باپ دادا کے راستے پر چلتے ہوئے اکبر کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جسے بالآخر مغل سرکار کے خلاف مزاحمت کرنے پر سزا دی گئی۔

لوہڑی کے تہوار پر دُلا بھٹی کو روایتی گیتوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

روایت ہے کہ دُلا بھٹی شاہ حسین کا مرید تھا جو دُلا بھٹی کی پھانسی کے وقت لاہور کی کوتوالی میں زیرحراست تھے۔ دُلا بھٹی کی پھانسی پر شاہ حسین بھی رنجیدہ ہوئے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہ حسین نے ہی حکومت سے دُلا بھٹی کی لاش وصول کی اور بھاٹی چوک میں نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد میانی صاحب میں ایک اونچے ٹیلے پر دفن کر دی۔
لوہڑی کا تہوار بھلے دُلا بھٹی کی پیدائش سے پہلے سے ہی کیوں نہ منایا جا رہا ہو مگر دُلا بھٹی کی موت نے اس تہوار کو ایک ایسے ہیرو سے جوڑ دیا جس کی پنجاب دھرتی کو اس وقت ضرورت تھی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دُلا بھٹی کے حوالے سے تاریخ زبانی روایت اور لوک داستانوں پر مبنی ہے مگر لوک تہوار کبھی پابند روایات کے اسیر نہیں ہوا کرتے۔ دُلا بھٹی نام کا کوئی باغی تھا یا نہیں مگر شہنشاہ اکبر نے فتح پور سیکری سے اپنا دارالحکومت ضرور لاہور منتقل کیا تھا جس کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں، جس کے چند برس بعد 26 مارچ 1599 کو دُلا بھٹی کو سولی چڑھا دیا گیا۔
ہم بسنت منانا چھوڑ چکے۔ بیساکھی کا تہوار بھی ماضی کی ایک روایت بن چکا اور ہم اب لوہڑی کے تہوار کو اپنانے سے بھی انکاری ہیں، کیوںکہ یہ عام لوگوں کے تہوار ہیں، یہ پنجابی دھرتی کے ہر شہری کا تہوار ہے جنہیں لوہڑی کی ڈھیر ساری مبارک باد۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں تاکہ اس حبس زدہ ماحول میں لوگوں کے چہروں پر مسکان آ سکے۔

شیئر: