Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، پی ٹی آئی بلے کے انتخابی نشان سے محروم

بیرسٹر علی ظفر کے مطابق ’کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنا عوام کے بنیادی حق کی نفی ہے‘ (فوٹو: سکرین گریب)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنیچر کی رات گئے تین رُکنی بینچ کا محفوظ شدہ متفقہ فیصلہ سنایا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ 
بعدازاں طویل انتطار کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی کے ہمراہ تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا جو ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا گیا۔
انہوں ںے اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہوتی ہیں جبکہ شواہد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے ہیں۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’14 ارکان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔‘
بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ ’پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2024 کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔‘
عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق ’پشاور ہائی کورٹ نے پارٹی کے 14 ارکان کے موقف کو مسترد کیا تھا جبکہ ان ارکان نے پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی وابستگی ثابت کی۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے مطابق یہ 14 ارکان اس کے نہیں، تاہم انہیں پارٹی سے نکالے جانے کے ثبوت پیش نہ کرسکی۔‘
’پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا جبکہ الیکشن کمیشن نے بتایا کہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ 13 سیاسی جماعتوں کے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے ہیں۔‘
 

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات یقینی بنائے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عدالتی فیصلے کے مطابق ’پارٹی ارکان کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اطلاع دی گئی نہ ہی الیکشن کے مقام کا بتایا گیا، ایک سرٹیفیکیٹ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرائے گئے ہیں۔‘
تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن آف پاکستان کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات یقینی بنائے۔‘
اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف نے انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کے معاملے پر سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا تھا جس میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’الیکشن درست ہو تو نشان کا مسئلہ خود حل ہو جائے گا۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ الیکشن کمیشن کا حکم ہی کالعدم ہو گیا تو سب کچھ ختم۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے۔‘

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے شواہد پیش نہیں کرسکی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’پی ٹی آئی اپنی جماعت کے ممبران سے اتنی خوف زدہ کیوں ہے؟‘
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’تاثر ہے کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ ہمارے کارکنان کو ہراساں کیا جا رہا تھا۔ ہراساں کرنے کی وجہ سے ہی پشاور میں انتخابات کروائے گئے۔‘
اپنے دلائل کے دوران حامد خان نے کیس کی سماعت اتوار تک ملتوی کرنے کی استدعا بھی کی، تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ دلائل ختم کریں ہم فیصلہ کریں گے۔‘
قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’سوال یہ ہے کہ لاہور میں کیس زیر سماعت تھا تو پشاور ہائی کورٹ کیوں گئے؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ دونوں کیسز الگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کی اپیل ناقابل سماعت ہے۔‘
حامد خان نے مزید کہا کہ ’تحریک انصاف کے لیے الیکشن کمیشن نے دہرا معیار اپنایا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ دلیل اپنی پٹیشن میں آپ نے کہاں بتائی؟ جو دلیل ہائی کورٹ میں نہیں دی گئی وہ سپریم کورٹ میں نہ دیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کا تنازع آپ ہی کے اپنے ممبران نے اٹھایا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وجیہہ الدین صاحب بھی کیا ناراض ہو کر چلے گئے تھے؟‘

پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان ملنے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’بنیادی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی جماعت کے ممبران سے اتنی خوف زدہ کیوں ہے، ’الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں؟‘
اس پر حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، تاہم اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیے گئے ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح سکروٹنی نہیں کی۔‘

’جو کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے تو وہ اس کو ثابت کرے‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ’جو کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے تو وہ اس کو ثابت بھی کرے۔‘
یہ ریمارکس انہوں نے تحریک انصاف کو بلے کا نشان دیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دیے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حامد خان اور بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے اندر کسی بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار نہیں رکھتا۔
’آئین کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ہر پارٹی حق رکھتی ہے کہ ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔‘

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزامات لگایا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنا عوام کے بنیادی حق کی نفی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، اس لیے جلدی دلائل دینے کی کوشش کروں گا۔‘
 اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے پاس بھی وقت کم ہے، آرڈر بھی لکھوانا ہے۔‘
بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرا پارٹی کو چیلنج نہیں کیا تھا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو یہ سول کورٹ کا معاملہ تھا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں شوکاز نوٹس جاری کیے گئے، کیا آپ کی حکومت کے وقت میں الیکشن کمیشن آزاد ادارہ تھا اور اب کسی کے ماتحت ہو گیا ہے؟‘
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دی گئیں جن کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ وہ پارٹی کے ارکان ہی نہیں ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اکبر ایس بابر پارٹی کے بانی رکن ہیں، اگر ان کی شکل پسند نہیں تو وہ الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اکبر ایس بابر کی شکل پسند نہیں تو وہ الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی‘ (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے کہا کہ ’صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ رکن نہیں تھے، اگر وہ استعفے کے بعد کسی اور پارٹی میں گئے تو اس کا کوئی ثبوت دکھا دیں۔‘
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’الیکش کمیشن پر بدنیتی کا جو الزام لگایا گیا ہے اس کو بھی ثابت کرنا ہو گا۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے بار بار اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیے جانے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ ’ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کہتا ہے، اصل لفظ فوج ہے، ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے۔‘
’اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت کے دور میں وہاں کون تھا، کیا چیف الیکشن کمشنر کا تقرر خود پی ٹی آئی نے نہیں کیا؟‘
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت سب ٹھیک تھا اب پی ٹی آئی کہتی ہے کہ سب ادارے اس کے خلاف ہو گئے ہیں، اگر وہ صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو اس سے ملک کے ادارے کمزور ہوں گے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا کہ ’کیا پارٹی نے اپنے جاری کردہ شیڈول کی پیروی کی؟ اس میں کیا نکات تھے کہ کون الیکشن کروا سکتا ہے کون نہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر ہی کارروائی ہوئی۔‘

شیئر: