Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کو زوال کیسے آیا؟

پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کے مطابق اٹھارویں ترمیم کا فائدہ ن لیگ کو ہوا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ 20 جون 1966 کی ایک تاریک رات تھی جب جنرل ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد براستہ ٹرین لاہور جا رہے تھے۔ وہ نواب آف کالا باغ کی دعوت پر لاہور جا رہے تھے جو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ 
اس سفر کے حوالے سے ممتاز مورخ سٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب ’زلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں لکھا کہ ’بھٹو کی لاہور آنے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور جب ٹرین سینٹرل لاہور کے سٹیشن پر رکی تو اس کے پلیٹ فارمز پر ایک انچ خالی جگہ نہیں تھی۔‘
اس واقعے کے حوالے سے ایک دہائی بعد جیل میں قید ذوالفقار علی بھٹو نے لکھا کہ ’تقریباً تمام لاہور ہی میرے استقبال کے لیے امڈ آیا تھا اور مجھ سے تقریر کی درخواست کی گئی۔ اگر میں چاہتا تو ایوب سے کیا وعدہ توڑ کر ایک سیاسی تقریر کرتا جس کے بعد پورے لاہور میں آگ لگ جاتی لیکن میں نے منہ سے ایک لفظ نہ نکالا۔‘
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر جو اس وقت طالب علم تھے اور سٹیشن پر خود بھی موجود تھے، نے اپنی کتاب ‘Bhutto: A Political Biography’ میں اس واقعے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’بھٹو کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر نم تھیں، لوگ ان کے ہاتھ چوم رہے تھے جبکہ وہاں موجود ہزاروں طالب علموں اور خیرخواہوں میں سے کچھ نے ان کو کندھوں پر اٹھا لیا۔ سٹیشن کے در ودیوار ’بھٹو زندہ باد‘، ’امریکہ مردہ باد‘ اور ایوب مخالف نعروں سے گونج اٹھے۔
جب بھٹو کو سٹیشن سے باہر لایا گیا تو ان کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور جس رومال سے انہوں نے اپنی آنکھیں پونچھیں وہ 10 ہزار روپے میں خرید لیا گیا۔‘
یہ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کی ابتدا تھی۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا انداز دیا اور تقسیم سے قبل کی جاری اشرافیہ کی سیاست کو پہلی بار عوامی رنگ میں ڈھال دیا تھا۔ 
بھٹو اور پیپلز پارٹی کے پنجاب میں عروج کے حوالے سے پاکستان کے ممتاز صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمان نے صحافی محمود الحسن کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی سیاسی جماعت ہے جو صحیح وقت پر نمودار ہوئی۔ اس وقت لوگ ایسی پارٹی کے منتظر تھے۔ ایوب خان کی آمرانہ حکومت سے عوام عاجز آ گئے تھے۔‘

تجزیہ نگاروں کے مطابق پی پی پی نے اپنے آپ کو سندھ تک محدود کرکے غلطی کی۔ (فوٹو: میڈیا سیل پی پی پی)

’30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پیپلز پارٹی کا پہلا کنونشن ہوا۔ اس میں اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے حصہ لیا۔ اس میں شرکت کے لیے لوگ دور دور سے آئے۔ منتظمین یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ سب معاملات باہم مشاورت اور بحث کے بعد طے ہو رہے ہیں۔ عوام کو لگا کہ جمہوری طریقے سے پارٹی بنائی جا رہی ہے۔ اس تاثر نے مڈل کلاس دانشور اور انٹیلی جینشیا کو بہت اپیل کیا۔ انہیں امید بندھی کہ اب ہمارے مسائل کا حل نکل سکے گا اور ہم آگے بڑھ سکیں گے۔‘
آئی اے رحمان  کے مطابق ’بھٹو سندھی لیڈر تھے لیکن زیادہ تر وقت انہوں نے پنجاب کی سیاست کی۔ ہندوستان سے ہزار سال لڑنے کی بات کر کے انڈیا مخالف جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ ون یونٹ توڑنے کی بات اس لیے نہیں کی کہ پنجاب اس سے ناراض ہوگا، چھوٹے صوبے کے لوگوں نے اس بات کا برا مانا لیکن وہ بس یہی کہتے رہے کہ جب پُل آئے گا تب اس کو پار کریں گے۔‘
بھٹو کی مقبولیت اور پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد صاف دکھائی دے رہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں مغربی پاکستان میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر پائے گا اور ہوا بھی یہی اور پیپلز پارٹی 138 سیٹوں میں سے 81 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ 
تاہم بعد میں شیخ مجیب الرحمن سے اختلافات، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور پھر ملک کے دولخت ہونے کے بعد اقتدار کا ہما ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر بیٹھا اور وہ پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پھر وزیراعظم بن گئے۔ 
بھٹو کے طرز حکمرانی اور پھر ملک میں تیسرے مارشل لا کے حوالے سے تفصیلات کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ لیکن پانچ جولائی کو جنرل ضیا الحق کی آمریت کے آغاز اور پھرچار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کا آغاز کر دیا۔ 

آئی اے رحمان کے مطابق ضیا کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں بینظیر بھٹو کا راستہ روکا اور ان کے مقابلے میں نواز شریف کی مکمل حمایت کی۔  (فوٹو: اے ایف پی)

ضیا الحق نے اپنی موت تک پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ابھرنے نہ دیا یہاں تک کہ ضیا کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں بینظیر بھٹو کا راستہ روکا اور ان کے مقابلے میں نواز شریف کی مکمل حمایت کی۔ 

پنجاب میں نوجوانوں کو نظرانداز کیا‘ 

پیپلز پارٹی کے پنجاب میں زوال کے حوالے سے صحافی اور کالم نگار وجاہت مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ 78 سے ہی پیپلز پارٹی کی کردارکشی شروع کر دی گئی تھی جبکہ 89 میں نواز شریف کے پنجابی عصبیت پر مبنی نعرے ’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘ نے بھی جذبات کو ابھارا۔‘
تاہم انہوں نے پیپلز پارٹی کی کچھ غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’پیپلز پارٹی نے پنجاب کو نظرانداز کرتے ہوئے خود کو صرف سندھی ایجنڈے تک محدود رکھا جو ایک غلطی تھی۔‘
وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ آج پیپلز پارٹی کو نوجوان نسل کی حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ ان کا حمایتی یا ووٹر 60 سال سے کم کا نہیں ہے۔  
پنجاب میں جو نوجوان تھے انہیں نظرانداز کیا گیا۔ 2011 میں پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری نے عمران خان اور طاہر القادری کی حمایت کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ن لیگ کو نقصان ہو گا لیکن اس کا حتمی نقصان پیپلز پارٹی کو ہی ہوا۔‘

وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ آج پیپلز پارٹی کو نوجوان نسل کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چارٹر آف ڈیموکریسی اور 18ویں ترمیم کا فائدہ ن لیگ کو ہوا‘ 

ایک عام سیاسی کارکن سے رہنما تک کا سفر طے کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے کہا کہ ’سنہ 77 کے بعد پنجاب میں ہماری حکومت نہیں بننے دی گئی۔ پیپلز پارٹی کو بتدریج روکا گیا بلکہ توڑا بھی گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں ہماری جماعت کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ بنایا گیا، سنہ 2013 میں ہمارے لوگ توڑے گئے بلکہ 2018 کے انتخابات سے قبل ہمارا 200 بندہ توڑا گیا۔‘
انہوں نے ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’چارٹر آف ڈیموکریسی اور 18ہویں ترمیم کا فائدہ ن لیگ نے اٹھایا۔ این ایف سی ایوارڈ کی مد میں اربوں روپے پنجاب کو ملے جو انہوں نے پروجیکٹس میں لگائے۔‘
اس سوال پر کہ کیا عمران خان کی مقبولیت سے بھی پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا؟ چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی مقبولیت بھی ایک پہلو ہے لیکن صرف یہی وجہ نہیں ہے۔ وہ 92 کا ورلڈ کپ جیت کر زیادہ مقبول تھے تو 97 میں انہیں ووٹ کیوں نہیں پڑے؟‘
اپنی جماعت کے سندھ تک محدود ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سندھ تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہم ہوئے نہیں۔ آج بھی ہم کھڑے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ آصف علی زرداری کی ’پاور پالیٹکس‘ سے پنجاب میں پارٹی کو نقصان پہنچا، پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ ’زرداری صاحب کی پالیسیوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ انہوں نے ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر نہ صرف پاکستان کو محفوظ رکھا بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی بچایا۔

شیئر: