Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مظلوم بن کر حمایت لینا ہمارا سیاسی کلچر ہے، وفاقی وزیر اطلاعات

پاکستان کے نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہر سیاسی جماعت کی طرف سے  لیول پلیئنگ فیلڈ کی شکایت کی جا رہی ہے لیکن الیکشن میں سبھی حصہ لے رہے ہیں۔‘
اُردو نیوز کو خصوصی انٹرویو میں  نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات کے حوالے سے کہا کہ ’پیپلزپارٹی کو شکایت ہے کہ پنجاب میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، ن لیگ کہتی ہے کہ انہیں سندھ میں نہیں مل رہی جبکہ مولانا کہتے ہیں کہ انہیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نہیں مل رہی لیکن الیکشن مہم سب  چلا رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق عام انتخابات کروانے کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کی جاتی ہے اور اس حکومت کے ذمہ آزادانہ انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہوتا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہاں ایک سیاسی کلچر بھی ہے کہ اگر آپ یہ کہیں کہ آپ مظلوم ہیں تو شاید اس سے آپ کو کچھ ہمدردی ملے۔ اگلی حکومت کس کی ہو گی یہ فیصلہ انتظامیہ نے نہیں کرنا بلکہ لوگوں نے اپنے ووٹ سے کرنا ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں تحریک انصاف کا الزام ہے کہ حکومت اُن کے ورچوئل جلسے کو روکنے کے لیے اِن دنوں انٹرنیٹ کی فراہمی میں خلل ڈال رہی ہے، نگراں وزیر اطلاعات نے کہا کہ  ’یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے کیونکہ میری معلومات کے مطابق جو آخری بار رُکاوٹ آئی تھی تو جس سیاسی جماعت کی آپ بات کر رہے ہیں ان کا پروگرام تو کوئی چار پانچ گھنٹے تھا جبکہ تعطل ایک گھنٹے کا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس جماعت کو ہی ہدف بنانا مقصود تھا تو پھر چار گھنٹے بھی انٹرنیٹ کو سست کیا جا سکتا تھا۔‘

مرتضیٰ سولنگی نے کہا ’پیپلزپارٹی کو شکایت ہے کہ پنجاب میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، ن لیگ کہتی ہے کہ انہیں سندھ میں نہیں مل رہی‘ (فوٹو:اے ایف پی)

وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے مزید کہا کہ ’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی طرف سے ہمارے پاس معلومات موجود ہیں جن کے مطابق وہ وجوہات تکنیکی ہیں۔ ویب مانیٹرنگ سسٹم جس کو انسٹال کیا جا رہا ہے جب اس انسٹالیشن کا عمل ہوتا ہے تو کافی چیزیں سست ہوجاتی ہیں لیکن کبھی کبھار وہ کیبل کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ کیس ٹو کیس مختلف بات ہوتی ہے۔‘
جب مرتضیٰ سولنگی سے یہ پوچھا گیا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے بحث جاری رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ملک میں کمزور جمہوریت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو اس حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اندر کتنی جمہوریت ہو گی اور وہ جمہوریت کتنی پائیدار ہوگی اس کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی قوتوں نے کرنا ہے اور پاکستان کےعوام نے کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب ہم دیکھیں گے کہ اب جب انتخابات ہو رہے ہیں کس طرح کی سیاسی قیادت سامنے آتی ہے وہ کس طرح کی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتی ہے یہ وہ طے کرے گی۔‘
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کے خلاف مہم پر بات کرتے ہوئے نگراں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی نشاندہی ہو چکی ہے اور بہت جلد ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
’ججز کے فیصلے پر تنقید ضرور ہونی چاہیے لیکن ان کو گالی دینا یا ان کے خاندانوں کو تکلیف دینا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ’اگر اس جماعت کو ہی ہدف بنانا مقصود تھا تو پھر چار گھنٹے بھی اس انٹر نیٹ کو سست کیا جا سکتا تھا۔‘ (فوٹو: ٹی این این)

اسلام آباد میں بلوچ دھرنے کے حوالے سے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں معلوم وہ کیوں اُٹھے ہیں اچانک انہوں نے کہا کہ ہم مایوس ہو کر جا رہے ہیں۔ البتہ ہم نے ان کو ضرور کہا تھا کہ ہمیں کوئی قابلِ عمل مطالبات بتائیں جو نگراں حکومت حل کر سکتی ہو تو ضرور کریں گے لیکن انہوں نے ایسے کوئی مطالبات نہیں رکھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ  ’ہم توقع رکھتے ہیں کہ الیکشن ہونے والے ہیں اس کے بات بعد اسمبلیاں وجود میں آئیں گی تو ہر مسئلے کا حل گفتگو سے نکل سکتا ہے۔‘
کیا مرتضیٰ سولنگی انتخابات کے بعد دوبارہ بطور صحافی کام کریں گے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ اس کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔

شیئر: