Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وسطی پنجاب: کیا پیپلز پارٹی 2008 کی پوزیشن پر واپس جا سکتی ہے؟

سنہ 2008 کے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے امیدوار بعد ازاں پارٹی چھوڑ گئے (فوٹو: بلاول بھٹو ایکس اکاؤنٹ)
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں آج گجرات میں انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔
انہوں نے ایک بار پھر وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے جس جگہ جلسے سے خطاب کیا وہ حلقہ این اے 65 کا ایک گاؤں کنگ چنن ہے جو پیپلز پارٹی کے اہم رہنما سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ کا حلقہ ہے۔ 
بلاول بھٹو زرداری ماضی قریب میں متعدد مرتبہ قمر زمان کائرہ کے اپنے شہر لالہ مُوسیٰ میں جلسے اور ریلیوں سے خطاب کر چکے ہیں، تاہم یہ پہلا موقعہ ہے کہ انہوں نے گجرات پھالیہ روڈ پر واقع ایک گاؤں میں جلسے کا فیصلہ کیا۔
ایک ایسے وقت میں جب بلاول بھٹو زرداری وسطی پنجاب میں نہ صرف انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ خود بھی لاہور کے ایک حلقے سے امیدوار ہیں اور وہ وفاق میں حکومت بنانے کے خواہاں بھی ہیں۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ان کی جماعت وسطی پنجاب کی 80 نشستوں میں اتنا حصہ وصول کرسکتی ہے کہ ان کو نمبر گیم میں مشکل پیش نہ آئے؟
سنہ 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور ڈویژن سے قومی اسمبلی کی 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
سنہ 2013 میں ان تمام ڈویژنوں میں پیپلز پارٹی ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی جبکہ 2018 میں صرف راجا پرویز اشرف کی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
یہی نہیں کہ وسطی پنجاب کے پانچ ڈویژن میں گذشتہ دو انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے بلکہ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ کوئی بھی امیدوار دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکا اور بیشتر کی تو ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق 2008 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پورے ملک میں پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور اسی لیے اس نے پنجاب میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ 

عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب کے تقریباً تمام حلقوں سے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں (فائل فوٹو: بلاول بھٹو ایکس اکاؤنٹ)

اُس وقت بلاول بھٹو زرداری جو کم عمر تھے لہٰذا وہ پارٹی سیاست سے لاتعلق رہے۔ آصف علی زرداری صدر بن کر ایوان صدر میں بیٹھ گئے، تاہم ان کی جماعت ملکی معاملات سنبھالنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
دوسری طرف پنجاب میں شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ سنبھالے رکھا جس کے باعث جنوبی پنجاب کے علاوہ پورے پنجاب سے انتخابی میدان میں پی پی پی کا صفایا ہوگیا۔
یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے گذشتہ پانچ سال کے دوران پنجاب میں پارٹی کی جگہ واپس لینے کے لیے چلائی گئی کئی مہمات بھی ناکام رہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر آمنہ محمود کا کہنا ہے کہ ’وسطی پنجاب میں 10 سال سے پیپلز پارٹی کو جس بحران کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ اُن کے وہ الیکٹ ایبلز ہیں جو 2008 کے الیکشن سے قبل جماعت میں آئے اور پھر ن لیگ، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ 
’ان امیدواروں کی شکست کی بنیادی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی بلکہ 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کا تشخص ایک طرف حکومتی کارکردگی اور دوسری طرف صدر زرداری کی ذات کی وجہ سے خراب ہوا۔ امیدوار اپنا پورا زور لگا کر بھی اس تشخص کو دُرست نہیں کر پا رہے۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’پی پی پی کا تشخص اس کی گذشتہ حکومت کی کارکردگی اور صدر زرداری کی وجہ سے خراب ہوا‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے جو رہنما اس وقت بھی وسطی پنجاب میں مقابلے کی پوزیشن میں ہیں ان کی خوبی صرف یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ جُڑے رہے اور موجودہ انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹوں کی تقسیم میں کیے گئے غلط فیصلے اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے پاس انتخابی نشان نہ ہونے کا انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘
’اگر 2018 کے عام انتخابات میں پنجاب کے پانچ ڈویژنز میں پیپلز پارٹی کے پاس صرف ایک سیٹ تھی تو اب دو سے تین ہوسکتی ہیں لیکن یہ نمبر وفاق میں حکومت بنانے کے دعوؤں کو سپورٹ نہیں کرتا۔‘
8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب کے تقریباً تمام حلقوں سے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری، راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر امیدوار صرف کاغذی کارروائی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب کے قومی اسمبلی کے لیے راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن سے 79 امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ 
ان میں سے دو خواتین (فیصل آباد ڈویژن میں)، ایک کا تعلق مسیحی برادری سے ہے (گوجرانوالہ ڈویژن میں)، ایک سابق وزیراعظم اور تین سابق وفاقی وزرا شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور بلاول بھٹو کے جیتنے کے امکانات موجود ہیں‘ (فائل فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)

ان قابلِ ذکر امیدواروں میں راولپنڈی ڈویژن میں این اے 52 (گوجر خان) سے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، گوجرانوالہ ڈویژن میں این اے 65 (لالہ موسیٰ) سے سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ، این اے77 سے امتیاز صفدر وڑائچ، سرگودھا ڈویژن میں این اے 82 سے سابق وفاقی وزیر ندیم افضل چن امیدوار ہیں۔
این اے 84 سے سابق وزیر مملکت تسنیم احمد قریشی، این اے 98 (سمندری) سے رانا فاروق سعید خان، لاہور ڈویژن میں این اے 127 سے بلاول بھٹو زرداری اور این اے 131 (قصور) سے چوہدری منظور اہم امیدوار ہیں۔
زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو اس وقت بھی وسطی پنجاب کے جن حلقوں میں پیپلز پارٹی کو جو امیدوار نظر آرہے ہیں اور وہ اپنے حریفوں سے مقابلے کی پوزیشن میں ہیں وہ یہی امیدوار ہیں۔ باقی حلقوں میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے درمیان ہے۔
تجزیہ کار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ وسطی پنجاب سے راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور بلاول بھٹو زرداری کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ 
’پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں اچھی مہم چلائی ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے عطا تارڑ کو شکست دے سکیں۔‘ 

شیئر: