Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماؤں، بہنوں اور بیگمات سمیت رشتے داروں نے پی ٹی آئی کا انتخابی محاذ کیسے سنبھالا؟

مہر بانو قریشی حلقہ این اے 151 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ (فوٹو: ایکس مہر بانو قریشی)
پاکستان میں رواں برس انتخابات کے لیے انتخابی سرگرمیاں آخری مراحل میں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں کو آگاہ کر دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 182 کے تحت چھ فروری 2024 اور سات فروری 2024 کی درمیانی شب 12 بجے کے بعد انتخابی مہم نہیں چلائی جا سکتی۔
یہ انتخابات کئی حوالوں سے دلچسپ ہونے جا رہے ہیں جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بطور جماعت شامل نہیں تاہم اس کے حمایت یافتہ نامزد امیدواران آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی طرف سے کئی ایسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے جو اپنے اُن رشتہ داروں کی جگہ الیکشن لڑ رہے ہیں جو یا تو جیل میں ہیں یا پھر روپوش ہیں۔ کئی ایسے نامزد امیدوار بھی ہیں جو اپنے اُن رشتہ داروں کی جگہ الیکشن لڑ کر دفاعی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں جن کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جا چکے ہیں۔
اُردو نیوز کی تحقیق پر متعدد نام ایسے بھی سامنے آئے جو سیاست یا پی ٹی آئی تو چھوڑ چکے ہیں لیکن ان کی جگہ اُن کے رشتے دار انتخابی میدان میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑ رہے ہیں۔
اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں ڈار فیملی آتی ہے۔ سابق پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار نے جب سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو اُن کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار نے کمان سنبھالی اور یہ کہہ کر سیاسی و انتخابی میدان میں قدم رکھا کہ ’سیاست عثمان نے چھوڑی ہے میں نے نہیں۔‘
اس کے بعد عثمان ڈار کے بھائی عمر ڈار مبینہ طور پر غائب ہو گئے تاہم بعد میں پولیس نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ اِس وقت عمر ڈار جیل میں ہیں لیکن اُن کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار این اے 71 سے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کے مدمقابل الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اسی طرح عمر ڈار کی اہلیہ روبا عمر ڈار بھی صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 46 سے انتخابات لڑ رہی ہیں۔ ان کی انتخابی مہم میں ان کی بیٹی لائبہ عمر ڈار بھی شامل ہوتی ہیں اور ان کو پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کیا ہے۔
اس الیکشن میں پی ٹی آئی کی جانب سے جنرل نشستوں پر سب سے زیادہ خواتین کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین ایسی ہیں جو جیل میں موجود اپنے والد، بھائی یا شوہر کے دفاع میں مجبوراً سامنے آئی ہیں۔

ریحانہ امتیاز ڈار این اے 71 سے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کے مدمقابل الیکشن لڑ رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما پرویز الٰہی ابھی جیل میں ہی تھے کہ اُن کی اہلیہ قیصرہ الٰہی نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی نے قیصرہ الٰہی کو گجرات کے قومی اسمبلی کی نشست این اے 64 سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے صاحبزادے مونس الٰہی اور شوہر پرویز الٰہی کے کاغذات ابتداء میں مسترد ہو گئے تھے تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ پی ٹی آئی نے انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 32 سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اس طرح اب دونوں میاں بیوی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔
پی ٹی آئی نے پی پی 34 سے سمیرہ الٰہی چوہان کو بھی ٹکٹ جاری کیا جو چوہدری پرویز الٰہی کی ہمشیرہ ہیں۔ سمیرہ الٰہی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اُن کے الیکشن لڑنے کا فیصلہ مونس الٰہی اور پرویز الٰہی نے کیا تھا۔
قریشی خاندان عام طور پر انتخابی میدان میں نظر آتا ہی ہے لیکن اس بار شاہ محمود قریشی سمیت ان کے بیٹے زین قریشی اور بیٹی مہر بانو قریشی نے مل کر انتخابات لڑنے کا ارادہ کیا تھا تاہم شاہ محمود قریشی خود جیل میں ہیں اور انہیں عدالت نے سائفر کیس میں پانچ سال تک الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔
اس وقت ان کی بیٹی مہر بانو قریشی حلقہ این اے 151 سے جبکہ ان کے بیٹے زین قریشی حلقہ این اے 150 سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے متحرک رہنما میاں عباد فاروق بھی جیل میں ہیں تاہم ان کے بھائی میاں شہزاد فاروق ان کی جگہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر این اے 119 سے مریم نواز کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اسی طرح این اے 69 منڈی بہاؤالدین سے سابق پرنسپل سیکریٹری وزیراعلٰی پنجاب کی اہلیہ کوثر پروین الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے شوہر محمد خان بھٹی جیل میں ہیں لیکن ان کی اہلیہ ان کی جگہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سامنے آئی ہیں۔

محمد خان بھٹی کی اہلیہ کوثر پروین این اے 69 منڈی بہاؤالدین سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ (فوٹو: یوٹیوب)

اس بار خواتین کے حوالے سے جن امیدواروں کا نام بار بار زیرِبحث آتا ہے اُن میں ایک نام انیقہ مہدہ حسن بھٹی کا بھی ہے۔ وہ سابق ایم این اے چوہدری مہدی حسن بھٹی کی صاحبزادی اور سابق ممبر صوبائی اسمبلی شوکت علی بھٹی کی بہن ہیں۔
مہدی حسن بھٹی دو بار قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اس بار شوکت علی بھٹی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تو اُن کی بہن انیقہ مہدی حسن بھٹی نے این اے 67 سے الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا۔ پی ٹی آئی نے انہیں اسی حلقے سے مسلم لیگ ن کی سائرہ افضل تارڑ کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا ہے۔
ٹیکسلا واہ کینٹ سے سابق صوبائی وزیر ملک تیمور مسعود نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تاہم ان کی والدہ ملک عذرہ مسعود این اے 54 سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک تیمور مسعود کے چھوٹے بھائی ملک فہد مسعود بھی پی ٹی آئی کی جانب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پی پی 13 سے امیدوار ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار برائے قومی اسمبلی NA-129 سے میاں اظہر ہیں جو سابق گورنر پنجاب رہ چکے ہیں اور پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کے والد ہیں۔ حماد اظہر خود روپوش ہیں اور انہوں نے الیکشن لڑنے سے دستبرداری کا اعلان کر رکھا ہے۔
ان امیدوارں میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جو اپنے رشتہ دار سیاستدانوں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد خود انتخابی سرگرمیوں میں متحرک رہے اور پھر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ 
این اے 77 گجرانوالہ سے پی ٹی آئی کی نامزد امیدوار راشدہ طارق ہیں جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے میاں طارق محمود کی اہلیہ ہیں۔
میاں طارق محمود کے کاغذات مسترد ہو گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اُن کے کاغذاتِ نامزدگی غائب کروائے گئے تھے۔

شوکت علی بھٹی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تو اُن کی بہن انیقہ مہدی حسن بھٹی نے این اے 67 سے الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا۔ (فوٹو: ایکس)

اس کے علاوہ سابق ایم پی اے طارق محمود ساہی کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد ان کی اہلیہ زرناب شیر پی پی 40 سے پی ٹی آئی کی نامزد امیدوار ہیں۔ وہاڑی کے ایک حلقہ این اے 157 سے سبین صفدر بندیشہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ یہ خود سیاست میں فعال نہیں تھیں، ان کے شوہر اعجاز سلطان بندیشہ پچھلی بار رکن صوبائی اسمبلی تھے لیکن اس بار ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں۔
لیہ حلقہ این اے 181 سے سابق ایم این اے عبدالمجید نیازی کی اہلیہ عنبر مجید نیازی انتخابات لڑ رہی ہیں اور انہیں پی ٹی آئی نے ٹکٹ جاری کر رکھا ہے۔ عبدالمجید خود روپوش ہیں اور ان کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ ویڈیو پیغامات کے ذریعے انتخابی مہم میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے رہنما یا روپوش ہیں یا پھر جیل میں ہیں اور انتخابی میلہ سج چکا ہے تاہم ان کے رشتہ دار ان کی جگہ انتخابی میدان میں سرگرم ہیں۔
کئی رہنما تو جیل سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں عالیہ حمزہ بھی شامل ہیں جو این اے 118 سے حمزہ شہباز کے مقابلےمیں جیل سے الیکشن لڑ رہی ہیں جبکہ ان کی بیٹی ان کے لیے حلقے میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
اسی طرح پی پی 149 سے حافظ ذیشان بھی علیم خان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جو جیل میں ہیں لیکن ان کی چھوٹی بیٹی ان کے لیے گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔

شیئر: