Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول وزارت عظمیٰ کے امیدوار یا مضبوط اپوزیشن لیڈر؟

پیپلزپارٹی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس منگل کو بھی جاری رہے گا (فائل فوٹو: پی پی پی)
اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیر کو حکومت سازی اور مسلم لیگ ن سے اتحاد کے معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس معاملے پر وسیع تر سیاسی مشاورت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے کئی ارکان کی رائے تھی کہ اگر بلاول بھٹو وزیراعظم کے امیدوار نہیں بنتے تو پیپلزپارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے۔
اجلاس میں اتحادی حکومت کا حصہ بننے کی صورت میں ہونے والے ’سیاسی نقصان‘ کا بھی جائزہ لیا گیا اور مشورہ دیا گیا کہ اس معاملے میں ’جلد بازی‘ نہ کی جائے۔ ایک رائے یہ سامنے آئی کہ اتحادی حکومت کمزور ہو گی، ایک کمزور حکومت کا حصہ بننے کے بجائے طاقتور اپوزیشن لیڈر بننا بہتر ہو گا۔
ذرائع یہ بھی بتا رہے کہ حکومت سازی کے معاملے پر بظاہر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی نے مرکز میں ن لیگ کو وزارت عظمی کے لیے ووٹ دینے کے بدلے اہم آئینی عہدے مانگ لیے ہیں۔
ن لیگ آصف علی زرداری کو صدر بنانے اور قومی اسمبلی کی سپیکر شپ دینے پر راضی ہے تاہم چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر اختلاف ہے۔ ن لیگ اس عہدے پر اسحاق ڈار کو ’ایڈجسٹ‘ کرنے کی خواہاں ہے۔
اس سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ اڑھائی، اڑھائی برس کے لیے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے وزیراعظم بننے کی تجویز سامنے آئی ہے تاہم اس پر دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی۔
ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے نجی ٹی ی چینل کے پروگرام میں یہ واضح کیا کہ اکثریت ہمارے پاس ہے اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ ن لیگ کا حق ہے۔ تین برس بعد حکومت دوسری جماعت کو دینا دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔
پیپلزپارٹی نے پیر کو جہاں وسیع تر مشاورت کی بات کی وہیں مسلم لیگ ن بھی سیاسی رابطوں میں مصروف ہے۔
ن لیگ نے ایم کیو ایم پاکستان کے علاوہ مولانا فضل الرحمان اور چوہدری شجاعت سے رابطے کیے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی آصف زرداری سے ایک اور ملاقات اسلام آباد میں متوقع ہے۔
یاد رہے کہ لاہور میں شہباز شریف کی قیادت میں ن لیگ کے وفد کی پیپلز پارٹی کی قیادت سے ہونے والی ملاقات میں دونوں سیاسی جماعتوں نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کے لیے اپنا کردار اکھٹے ادا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
 پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ابتدائی بات چیت کے بعد ذرائع کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ ’اکاموڈیٹ‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آصف زرداری کو صدر کے عہدے، چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی کی سپیکر شپ اور بلوچستان میں وزارت اعلٰی کی پیش کش کی گئی ہے۔ بلاول بھٹو کو وزیرخارجہ کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کو وزارتوں کی آفر کی گئی ہے۔ ن لیگ نے یہ پیکیج اس لیے آفر کیا کہ وہ وزارت عظمیٰ اور پنجاب کی وزارت اعلٰی میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اگر مسلم لیگ ن حکومت بناتی ہے تو شہباز شریف ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے جبکہ پنجاب میں مریم نواز وزارت اعلیٰ کی امیدوار ہو سکتی ہیں۔
پیپلزپارٹی کا اجلاس منگل کو بھی جاری رہے گا

مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ ’اکاموڈیٹ‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

بلاول ہاؤس اسلام آباد میں اجلاس کے بعد پارٹی رہنماؤں شیری رحمان، شازیہ مری اور فیصل کریم کنڈی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اجلاس منگل کو بھی جاری رہے گا۔
شیری رحمان کا کہنا تھا سی ای سی میں دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلے میں مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ عام انتخابات کے حوالے سے چاروں صوبوں تحفطات موجود ہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کا اجلاس  ہوا۔عام انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے معاملے پر مشاورت کی گئی۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے سی ای سی کے شرکا کو لاہور میں مسلم لیگ ن کی قیادت سے ہونے والی باضابطہ ملاقات پر بریف کیا۔ مرکزی مجلس عاملہ کے ارکان نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد اور حکومت سازی کے معاملے پر مختلف تجاویز پیش کیں۔
ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت اجلاس میں پیش کی گئی تجاویز کو مسلم لیگ ن کی قیادت کے سامنے آئندہ ملاقات میں رکھے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اجلاس میں ملکی کی مجموعی سیاسی اور معاشی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دوسری طرف آزاد نومنتخب اراکین کا مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ آزاد ارکان کی ن لیگ میں شمولیت کے بعد قومی اسمبلی میں ن لیگ کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 80 ہو گئی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ نے سادہ اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

فہیم الحامد اردو نیوز، انڈپینڈنٹ اردو اور ملیالم نیوز کے جنرل سپروائزر ہیں۔
 

شیئر: