Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریت کے ٹیلوں سے پگھلتے گلیشیئرز تک، شہزادی عبیر کی انٹارکٹیکا مہم

نومبر میں شہزادی عبیر انٹارکٹیکا کے دور افتادہ حصوں کی مہم میں شامل ہوئیں۔ (فوٹو بشکریہ: ہومورڈ باؤنڈ)
شہزادی عبیر بنت سعود بن فرحان السعود حال ہی میں سعودی عرب اور خلیجی خطے سے تعلق رکھنے والی پہلی شخصیت بنی ہیں جو براعظم انٹارکٹیکا کے دور دراز علاقوں تک تحقیقی مہم پر گئیں۔
گزشتہ برس نومبر میں شہزادی 45 ممالک کے اُن 18 سو درخواست دہندگان میں سے منتخب کردہ 80 افراد میں شامل کی گئیں جو ’سٹم‘ یا سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ، ریاضی اور طب کے شعبے میں خواتین کی قیادت کو فروغ دینے والی آسٹریلوی تنظیم ہومورڈ باؤنڈ کی طرف سے شروع کی گئی ہے۔
شہزادی عبیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اس مہم میں شامل ہونے کا مقصد موسمیاتی عمل، ماحولیاتی پائیداری، فطرت اور حیاتیاتی تنوع کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔‘
اس مہم میں سمندری ماہرین، ماہرینِ فلکیات، ماہرینِ ریاضی، سمندری حیاتیات اور قابل تجدید توانائی کے انجینیئر بھی شامل تھے، جنہوں نے مختلف منصوبوں پر تعاون کیا جن میں سے کچھ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کوپ 28 کا حصہ تھے، جو نومبر اور دسمبر میں دبئی میں منعقد ہوئی تھی۔
شہزادی عبیر نے کہا کہ ’ایک گروپ کے طور پر ہم میں سے چند شرکا نے سائنس، آرٹ اور پالیسی کو یکجا کرنے والے متعدد منصوبوں پر کام کر کے رپورٹس کا مسودہ تیار کیا اور اقوام متحدہ میں اس کی وکالت کی۔ جس کو کوپ 28 میں شرکت کے دوران پیش کیا گیا۔
نومبر میں شہزادی عبیر انٹارکٹیکا کے دور افتادہ حصوں کی مہم میں شامل ہوئیں، جس کی قیادت ہومورڈ باؤنڈ، ایک آسٹریلوی تنظیم سٹم نے کی۔
شہزادی عبیر ثقافت اور ورثہ، امن، کثیرالجہتی اور این جی او کی مہارت کے ساتھ بین الاقوامی ترقی کے لیے کام کرنے والی پروفیشنل ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی کئی ایجنسیوں کے لیے کام کیا ہے۔
شہزادی عبیر اس وقت سعودی عرب کی سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن (تلگا) کی سربراہ ہیں جس کا مقصد اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کو ویژن 2030 کے مطابق مقامی بنانا ہے۔
شہزادی عبیر نے بتایا کہ وہ اپنی زندگی ایسے منصوبوں کے لیے وقف کرنے کے بارے میں پُرجوش ہیں جو خطرے سے دوچار انواع، زمین اور کرہ ارض کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتی تھیں۔

اس مہم میں ماہرین فلکیات، سمندری ماہرین، ماہرینِ ریاضی، سمندری حیاتیات اور قابل تجدید توانائی کے انجینیئر بھی شامل تھے۔ (تصویر: ہومورڈ باؤنڈ)

وہ ایک آرٹسٹ بھی ہیں جو اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہیں اور جسے انہوں نے سعودی عرب میں اپنی ’کائناتی صحرائی‘ مہم جوئی کے طور پر بیان کیا ہے، جہاں وہ قدرتی مواد کو استعمال کرتے ہوئے کینوس پر کام تیار کرتی ہیں۔
انٹارکٹیکا کے لیے روانہ ہونے سے پہلے شہزادی عبیر نے کہا تھا کہ وہ اپنے آبائی ورثے کو آگے بڑھائیں گی۔
’میں ایک ریگستانی عورت اور ایک ملاح کے طور پر اپنے خمیر سے اُٹھان لیتے ہوئے آسمانوں کی طرف دیکھتی ہوں کہ وہ میری رہنمائی کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آسمان پر موجود ستاروں (سدرن کراس) نے مجھے بہت سے جوابات دیے اور بہت سے نئے سوالات کی طرف لے جایا ہے، بالکل اسی طرح جیسے نارتھ سٹار نے بے شمار نسلوں تک صحرا میں گھومنے یا سفر کرنے والوں کی رہنمائی کی ہے۔‘

شیئر: